قاصر

( قاصِر )
{ قا + صِر }
( عربی )

تفصیلات


قصر  قاصِر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اور بطور صفت نیز اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٥٩١ء کو "گل صنوبر" میں استعمال ہوا۔

اسم آلہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : قاصِروں [قا + صِروں (و مجہول)]
١ - (معماری) دودکش میں دھات کی وہ تختی یا پتر جو ہوا کو کم یا زیادہ کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔
"لوہے کی چادروں کے قاصروں کو دوسرے دودکش کے دہانے پر اتار دینا چاہیے۔"      ( ١٩٤٨ء، اشیائے تعمیر (ترجمہ) ٤٥ )
صفت ذاتی
جنسِ مخالف   : قاصِرَہ [قا + صِرَہ]
جمع   : قاصِرِین [قا + صِرِین]
١ - کوتاہی کرنے والا، مجبور، ناچار۔
"عرب میں یہی قانون جاری تھا مگر وہاں کی حکومت اس کا متوازن نفاذ کرنے سے قاصر تھی۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائلِ پاکستان، ١٤٦ )
٢ - (قدیم) مختصر۔
 کہتا ہوں بیان ہندی میں ظاہر کہ میں بیان بنایا بہت قاصر      ( ١٥٩١ء، گل و صنوبر، ٧ )