قرار

( قَرار )
{ قَرار }
( عربی )

تفصیلات


قرر  قَرار

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے لحاظ سے بعینہ داخل ہوا اور اسم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - آرام، چین، سکون، راحت۔
 اُس طرف شوخیوں میں بھی تمکیں اس طرف اضطراب میں بھی قرار      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ١٩٢ )
٢ - ثبات، ٹھہراؤ، قیام۔
"دنیا کی کسی حالت کو قرار نہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٢٦ )
٣ - اقرار، عہد، پیمان۔
 گھڑ والیے ہیں خوئے اسیری نے کچھ صنم جھوٹا قرار جن سے کیا ہے نباہ کا      ( ١٩٥٨ء، تارِ پیراہن، ١٦١ )
٤ - طے شدہ صورت حال، کسی امر کے مقرر کرنے یا کیے جانے کا عمل، طے پانا۔
"تمام داستان خود مصنف کے قول و قلم سے ایک فرضی افسانہ قرار پاتی ہے۔"      ( ١٩٣٩ء، افسنۂ پدمنی، ٢٥ )
١ - قرار آجانا
اطمینان ہونا، سکون ہونا، اضطراب رفع ہونا، دل کا تھم جانا۔ جیسے صحراءوں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے      ( ١٩٨٤ء، نسخہ ہائے وفا، ١٥ )