عقد

( عَقْد )
{ عَقْد }
( عربی )

تفصیلات


عقد  عَقْد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٨٦٥ء کو "دیوان نسیم دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - گرہ، گانٹھ، بندھن۔
 کھلتے ہیں عقد غنچہ کس آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں کیا عروسِ چمن سے صبا کے ناز    ( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ١٥٨ )
٢ - گرہ لگانا یا باندھنا۔
"اگر ماخذ ظاہر کر دیا جائے اور اقتباس نظم سے ہو تو اسے عقد کہتے ہیں یعنی گرہ لگانا۔    ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٧:٣ )
٣ - [ مجازا ] مشکل کام، پیچیدہ مسلہ۔
 ہر اِک عقدِ مشکل کو تجھ سے کشور ترے فضل سے ہے عدم کو وجود    ( ١٨٩٣ء، صدق البیان، ٤ )
٤ - معاہدہ، عہدو پیماں، قول و قرار۔
"مسلمانوں کو اپنے اسلام کی وجہ سے اور ذمیوں کو عقد ذمہ کی وجہ سے جو امان تھی وہ باقی نہ رہے۔"      ( ١٩٥٦ء، مناظر احسن گیلانی، (سود، مولانا سید ابوالاعلی مودودی، ٢٨٢) )
٥ - بیع، فروخت۔
"اسی طرح معاملات میں وہ ترقیقیں کی گئیں کہ کوئی بیع اور کوئی عقد فقسہا کے اصول کے موافق صحیح نہیں ٹھہر سکتا۔"      ( ١٨٧٨ء، مقالات حالی، ٦٣:١ )
٦ - نکاح، بیاہ۔
"یہ روایت تو مدینۃالنبیۖ میں حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کے عقد کے بعد مدتمر کے لیے دعوت دی۔"      ( ١٩٢٦ء، مسلۂ حجاز، ١٦٠ )
٧ - [ طب ] بستہ ہو جانا، پتلی شے کا گاڑھا ہو جانا۔
"نرم آگ دو ایک پہر میں قائم اور عقد ہو جائے گی۔"    ( ١٩٠٦ء، اکسیر الاکسیر، ٤٢ )
٨ - بستہ کرنا، گاڑھا کرنا۔
"قلعی مصفاً ایک حصہ، سیماب ایک حصہ دونوں کو پہلے عقد کر کے بعدہ زر نیخ دونوں کے ہم وزن ملا کر خوب کھول کریں۔"    ( ١٩٣٠ء، جامع الفنون، ١٧١:٢ )
٩ - [ خوش نویسی ]  دو حرفوں کے اتصال یا جوڑ کی جگہ کا نقطہ یا شوشہ، پیوند حرف۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 217:4)
  • A tie
  • knot;  the marriage-knot;  a contract
  • compact
  • agreement
  • league
  • treaty;  responsibility
  • accountableness