قدرت

( قُدْرَت )
{ قُد + رَت }
( عربی )

تفصیلات


قدر  قُدْرَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں حقیقی معنوں اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : قُدْرَتیں [قُد + رَتیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : قُدْرَتوں [قُد +رَتوں (و مجہول)]
١ - طاقت، قوت، زور۔
"خدا کے سوا کس میں اتنی قدرت ہے کہ کسی کے کام آسکے۔"    ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٤٤ )
٢ - مجال، سکت۔
"جب وہ نہ فرماتے کہ اچھا سدھا رو تب تک ان کی قدرت نہ تھی کہ خود رخصت ہو سکتے۔"    ( ١٩٥٨ء، شاد کی کہانی شاد کی زبانی، ٤٢ )
٣ - امکانی، قوت، دسترت، مقدور، عبور۔
"آپ کو اس زبان کے محارورں کے استعمال پر پوری قدرت نہیں ہے۔"    ( ١٩٨٥ء، بزم خوش نفساں، ٢٨ )
٤ - قابو، اختیار۔
 موت بھی آئی تو چہرے پر تبسم ہی رہا ضبط پر ہے کس قدر ہم کو بھی قدرت دیکھیے    ( ١٩٢٠ء، روح ادب، ٨٦ )
٥ - حوصلہ، ہمت، سکت۔
 ہو طرف مجھ پہلوان شاعر کا کب عاجز سخن سامنے ہونے کو صاحب فن کے قدرت چاہیے      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٢٩٤ )
٦ - [ مجازا ]  وہ طاقت جس سے دنیا اور اس میں موجود ہر چیز پیدا ہوتی ہے۔
"یہ قوت قدرت کی تخلیقی طاقت کا ایک عکس ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١١٧ )
اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
١ - خدائی طاقت یا شان خداوندی، کرشمۂ قدرت، خدا کی ذات۔
"ان پر قدرت کی خاص نظر تھی۔"      ( ١٩٨٨ء، جنگ، کراچی، ٢٢ اپریل، ١٤ )