طاقت

( طاقَت )
{ طا + قَت }
( عربی )

تفصیلات


عربی  طاقَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩٩ء کو "کتاب نورس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : طاقَتیں [طا + قَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : طاقَتوں [طا + قَتوں (و مجہول)]
١ - قوت، توانائی، بل۔
"کسی عامل کی طاقت کا اندازہ اس کے کام کرنے کی شرح سے کیا جا سکتا ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، مبادیاتِ طبیعیات، ١٠٤ )
٢ - کسی کام کو کرنے کی قدرت، برداشت، قوت۔
"نانا تمہارا بیمار ہے اور بدلہ دینے مے لاچار، طاقت تازیانے کی نہیں رکھتا۔"      ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ٦٣ )
٣ - مجال، تاب، جرأت۔
"جس دل میں یہ طاقت ہو اس کی صلاحیتوں کی حد نہیں ہوتی۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائلِ پاکستان، ١٧٢ )
٤ - قابلیت، صلاحیت، لیاقت، استعداد۔
"ہر ایک فرد عقل، طاقت وجاہت بلکہ شعور تک میں بھی برابر نہیں ہوتا۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٢٤ )
٥ - بساط، حیثیت، ظرف۔
 یہاں طاقت نطق پاتا نہیں کہ کوزے میں دریا سماتا نہیں      ( ١٨٧٢ء، محامدِ خاتم النبین، ٢ )
٦ - کرشمہ، اعجاز، کرامات۔
 شراب ناب کو دیکھا ہے شہد و شبر بن جاتے نہاں ہیں طاقتیں کیا کیا ہر اک اللہ والے میں      ( ١٩٣٢ء، ریاض رضوان، ١٧٧ )
٧ - موثر ہونا، تاثیر، اثر کرنے کی قدرت یا صلاحیت۔
"میں نے لکھا تھا کہ دوائی کی طاقت ذرا زیادہ کر دی جائے تو شاید فائدہ ہو۔"      ( ١٩٣٤ء، مکاتیب اقبال، ٣١٠:٢ )
٨ - اقتدار، حکومت، اختیار؛ حریف، فریق۔
"ملکی قانون کا دار و مدار طاقت پر ہے اخلاقیات پر نہیں۔"    ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٤١ )
٩ - (دشمن سے) مقابلے کا سامان، اسلحہ اور فوج۔
"جتنے آدمی پہلے میرے ہمراہ تھے اتنے ہی اور دو تاکہ اگر وہ مجھ سے لڑنا چاہیں تو میرے پاس کافی طاقت موجود ہو۔"    ( ١٩٦٥ء، خلافتِ بنوامیہ، ٤٠:١ )
  • Strength
  • power
  • force
  • patience
  • ability