گلابی

( گُلابی )
{ گُلا + بی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'گلاب' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'گلابی' بنا۔ اردو میں بطور صفت اور گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٧٢ء کو "دیوان عبداللہ قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - [ مذکر ]  گلاب کے پھول کا رنگ، ہلکا لال رنگ، ہلکی سرخی۔
 گلابی گلابی وہ ہلکا سا رنگ نہیں آج گالوں یہ کل کے سارنگ      ( ١٩١٠ء، قاسم اور زہرہ، ٤٤ )
٢ - [ مؤنث ]  شراب کا گلاس، شراب کا پیالہ، ساغر، جام۔
"اس لیے گلابیاں طاقوں پر چنی دھری رہتیں، جب بھی کوئی مہمان آتا تو بلاتکلف اس سے انہیں نوازا جاتا۔"      ( ١٩٥٧ء، نقد حرف، ٣٠١ )
٣ - شراب نیز گلاب کی بوتل، صراحی۔
 زمین تشنہ کام کی جماہیوں کے سامنے شراب لالہ رنگ کی گلابیاں لیے ہوئے      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٨٧ )
٤ - ایک قسم کی مٹھائی۔
 میٹھی ہے جس کو برفی کہیے، گلابی کہیے یا حلقے دیکھ اس کے تازی جلیبی کہیے      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ١٦٥:٢ )
٥ - ناشپاتی کی ایک قسم۔
"ہندوستان سے باہر جہاں جہاں کہیں یہ لفظ (امرود) بولا جاتا ہے اس سے "گلابی" یعنی "ناخ" "ناک" یا ناشپاتی مقصود ہوتی ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، اردو نامہ، کراچی، ١٣:٤٤ )
صفت ذاتی ( واحد )
١ - گلاب کے رنگ کا، ہلکا سرخ، گلگوں نیز گہرا پیازی۔
"ایک روز وآپس آیا تو ہاتھ میں آلوچے کے گلابی شگوفوں سے لدی ہوئی بڑی سی ڈالی تھی۔"      ( ١٩٨٨ء، یادوں کے گلاب، ٤٦ )
٢ - [ ]  گلاب میں بسا ہوا، گلاب آمیز، جیسے: گلابی پیڑا ہے قند کا، گلابی ریوڑی ہے کھانڈ کی۔ (فرہنگ آصفیہ)
٣ - ہلکا، کم کم، خوشگوار جو شدت نہ رکھتا ہو جیسے گلابی جاڑا وغیرہ۔ (فرہنگِ آصفیہ)۔
  • Rose colour;  red (or ruby) wine;  a bottle
  • flagon (for holding rose-water
  • or wine);  a kind of sweat meat (scented with rose-water).