کاتب

( کاتِب )
{ کا + تِب }
( عربی )

تفصیلات


کتب  کاتِب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اردو میں حقیقی معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع استثنائی   : کاتِبِین [کا + تِبِین]
١ - حمد نگار، مداح، حمدو ثنا لکھنے والا۔
 پتہ پتہ کاتب تیرا ذرہ ذرہ طالب تیرا      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٢٤ )
٢ - معتمد، سیکرٹری۔
"مشہور و معروف استاتذہ سے فارس میں تعلیم پائی پھر دربار شریفی میں کاتب (سیکرٹری) مقرر ہو گیا۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٩:٣ )
٣ - عالم، فاضل۔ (جامع اللغات)
٤ - ستارہ عطارد۔ (جامع اللغات؛ اسٹین گاس)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : کاتِبَہ [کا + تِبَہ]
جمع استثنائی   : کاتِبِیْن [کا + تِبِین]
جمع ندائی   : کاتِبو [کا + تِبو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : کاتِبوں [کا + تِبوں (واؤ مجہول)]
١ - لکھنے والا شخص، جس نے کوئی چیز لکھی یا نقل کی ہو، منشی، محّرر۔
"حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس صلح نامے کے کاتب تھے۔"      ( ١٩٦٣ء، محسن اعظم اور محسنین، ٦٣ )
٢ - کتابت کا پیشہ کرنے والا، کتابت کرنے والا، خوشنویس۔
"ممکن ہے مخطوطے کے کاتب نے اپنی طرف سے یہ تبدیلی کر دی ہو۔"      ( ١٩٨٢ء، تاریخ ادب اردو، ٢، ٥٩:١ )