گن

( گُن )
{ گُن }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : گُنوں [گُنوں (و مجہول)]
١ - اچھی عادت یا خصلت، وصف، صفت، جوہر، خوبی، کمال، مدح و ثنا، توصیف و تعریف۔
"عورت کا یہ تو گن ہے سدا سے مشہور ہر طرح کی تنگی بھی اٹھا لے گی، مگر جب چاپ کچھ بچا کے رکھے گی ضرور۔"    ( ١٩٧٨ء، گھر آنگن، ٣١ )
٢ - نیکی، بھلائی، اعمال نیک۔
 نام جس کا رہ گیا کچھ اس کا گن باقی رہا ورنہ جو یاں سے گیا ساتھ اس کے اس کا گن گیا    ( ١٨٥٤ء، کلیات ظفر، ٤:٣ )
٣ - اثر، تاثیر۔ (فرہنگ آصفیہ، علمی اردو لغت)
٤ - عمل، کام۔
"غیر قومیں جتنا بھی اعتراض کریں کم ہے کیونکہ وہی کہاوت ہے اونچی دکان پھیکا پکوان مسلمانوں کی دھاک تو اتنی گن دیکھو تو خاک بھی نہیں۔"      ( ١٩١٧ء، بیوی کی تعلیم، ١٣٦ )
٥ - عقل، سمجھ، ذاتی و صف، عمل۔
"آدمی کی جو کچھ عزت آبرو ہوتی ہے نفع ہوتا ہے سب اپنے گنوں سے۔"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، طرح دار لونڈی، ٢٠٠ )
٦ - علم و ہنر، فن۔
"گوروں میں ایک بات تھی یہ گن کی قدر کرتے تھے۔"      ( ١٩٨٨ء، نشیب، ٣٨٢ )
٧ - [ برے معنوں میں ]  کرتوت، لچھن۔
 آخر اپنے ساتھ کبھی تو اک بے مہرمروت بھی اپنے سارے نام بھلا کر، کبھی خود اپنے گن تو گنو      ( ١٩٦٥ء، لوح دل (کلیات مجید امجد، ٣١٢) )
٨ - احسان، منت، مہربانی، نوازش، عنایت، کرم۔
 ظاہر ہیں یوں تو سب پر ترے گن لیکن نہ پایا تیرا سردُبن      ( ١٩١١ء، کلیات اسمعیل، ٢٦ )
٩ - نفع، فائدہ۔
 ہم دل نہ دیں گے ہنس کر بولا یہ کیا سخن ہے ہم نے کیا کہ حضرت اس نے کیا کہ گن ہے      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ١٨٢ )
١٠ - نتیجہ، پھل۔ (فرہنگ آصفیہ)
١١ - موٹا رسا جس سے ناؤ کو بہاؤ کے برخلاف کھینچ کر لے جاتے ہیں۔
 بحر غم میں اپنی کشتی کی تباہی کیوں نہ ہو کب سے گن ٹوٹا پڑا ہے بادباں بیکار ہے    ( ١٨٩١ء، اشک (علی حسن)، معیار نظم، ١٩٨ )
١٢ - پھانسی دینے کی رسی جو ڈھائی ہاتھ کی ہوتی ہے، کمان کا چلا، کمان کی تانت۔ (فرہنگ آصفیہ)۔
١٣ - علم، عرفان، فضلیت، لیاقت۔
 ہوئے پڑھ کے نچنت تو عہدہ ملا ہوا گیان کا گن کا جو شہر میں نام      ( ١٩٢٧ء، سریلے بول، ٥٢ )
١٤ - [ ریاضی ]  ضرب نیز حاصل ضرب، دگنا (مرکبات میں)۔ (ماخوذ: جامع اللغات، پلیٹس)
١٥ - [ ہندسہ ]  قوس کا وتر۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٦ - [ فلسفہ ہنود ] خلقت یا تخلیق عالم کے تین بنیادی اجزا میں سے کوئی جوہر، حرکت اور جمود یا مادہ۔
"ازل میں تینوں گن برابر برابر آپس میں ملے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے اثر کو زائل کرتا تھا۔"    ( ١٩٣١ء، ارتقا، ٥ )
١٧ - [ فلسفہ ] کیف، وہ عرض جو بذاتہِ تقسیم قبول نہ کرے (جیسے سپاہی، سفیدی، نشہ، خمار)۔
"فلسفہ کی اس شاخ میں سات محمولات مذکور ہیں جن پر تمام فن کا انحصار ہے . (١) درب (مادہ) (٢) گن (کیف) . (٧) ابہاؤ (سلب)"۔    ( ١٩٣٩ء، آئین اکبری (ترجمہ)، ١٢٧:٢ )
١٨ - سبب، باعث، کارن۔
"انہیں گنوں پے کہتی تھیں کہ میں پکاؤں گی۔"      ( ١٩١١ء، قصہ مہر افروز، ٧ )
١٩ - [ فلسفہ ]  عرض، قائم بالخیر۔ (جامع اللغات، فرہنگ آصفیہ)
٢٠ - رسی، دھاگا، سازکا دھاگہ یا تار، کسی کام کا غیر ضروری یا چھوٹا حصہ، زیادتی، کمی (بیماری وغیرہ کی)، عنصروں یا اشیا کی خاصیت، بار، مرتبہ، نقشہ، وضع، روپ، حواس، حواس خمسہ میں سے کوئی ایک، اعراب کی پہلی آواز، بہادری، شجاعت۔ (پلیٹس، فرہنگ آصفیہ)
  • A string or thread;  a rope;  a track-rope;  string (of a musical instrument);  bow-string;  chord (of an arc);  fold
  • times.