فن

( فَن )
{ فَن }
( عربی )

تفصیلات


فنن  فَن

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ جو اردو میں اپنے اصل مفہوم و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : فُنُون [فُنُون]
١ - دستکاری، صنعت، کاریگری، صلاحیت جو فطری نہ ہو بلکہ تجربہ، محنت اور مشق سے پیدا ہو۔
"اس کا اثر کاریگری، صناعی . فنِ تعمیر اور تفریحات پر کیا پڑ رہا ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ٢٧ )
٢ - خوبی، قابلیت، استعداد۔
"وہ اس فن میں کشور ناہید کو دادا دینے پر تلا نظر آتا ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ٣٦ )
٣ - ہنر، لیاقت، صلاحیت۔
"اسی چکر کو توڑنا فن ہے اس نے بات ختم کی۔"      ( ١٩٨٨ء، نشیب، ١٣٨ )
٤ - مشغلہ، کاروبار، پیشہ۔
"ان علاقوں کے لوگوں کے جذبات عقائد، مسلک، فن، تعمیر . وفاداریاں باقی ملک کے لوگوں سے مختلف تھیں۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٥ )
٥ - شمشیر بازی کے دانو۔
"جب تلوار بازی کا فن تمام ہوا، تب کمر بند دونوں کا دونوں نے پکڑ کے زور کرنے لگے۔"      ( ١٨٠٠، قصہ گل و ہرمز (ق)، ٧٨ )
٦ - مکر، حیلہ، فریب۔
"مہاراج ایسی بات منہ سے نہ نکالیے یہ اشڑ میں پلی بڑی ہے فن فریب کیا جانے۔"      ( ١٩٣٨ء، شکنتلہ، اختر حین رائے پوری، ١٢٩ )
٧ - چال، ترکیب، تدبیر۔
 وہ کپڑے گوپھٹے تھے ہم پر اپنے فن میں تھے پورے لگا رکھتے تھے ایسے وقت پہ بچہ گلہری کا      ( ١٨٣٠ء، کلیاتِ نظیر، ٨٨:٢ )
٨ - علم و ہنر کا وہ شعبہ جسکی تکمیل میں قوائے متخیلہ اور قوائے دماغی سے کام لیا جائے۔
 ہوئی اُمید کہ اب قیدِ فن سے اٹھتی ہے اک آگ سی میرے تن بدن سے اٹھتی ہے      ( ١٩٧٢ء، لاحاصل، ١٠٩ )
  • Science
  • skill
  • sagacity
  • stratagem
  • art
  • artifice