گور

( گور )
{ گور (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - قبر۔
"یہ پولیس کے تعاقب میں اور کبھی پولیس ان کے پیچھے، یوں تو پوتڑوں کے بگڑے گور تک نہ سنبھلے۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ١٨٠ )
٢ - دشت، صحرا، جنگل۔
"گور جنگل اور صحرا کے معنی میں ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٨٠:٦ )
٣ - گورخر۔
 بہرام جو گور کو پکڑ لیتا تھا خود گور کی ہے گرفت میں اب بہرام      ( ١٩٨٢ء، دشت زرفشاں، ٤٠ )
٤ - شراب، خوشی، عیش و عشرت، دسترخوان کے مزے، کنجوس۔ (جامع اللغات)
٥ - [ کنایۃ ]  گورستان۔ (نوراللغات)
١ - گور پر رونا
قبر پر جا کر گریہ و زاری کرنا۔ لکھنءو میں شاد سوموں کی ہے خست آجکل گور پر حاتم کے روتی ہے سخاوت آجکل      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، دیوان، ٢٨٧ )
٢ - گور کا لقمہ ہونا
موت کے منھ میں جانا، مر جانا۔ خوان الوان فلک پر کیا مسرت ہو مجھے گور کا لقمہ ہوا جو اس کا مہماں ہوگیا      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١١٥:١ )
٣ - گورو کفن کرنا
تجہیز و تکفین کرنا۔"ایک امیر آن کر ٹھہرا اور اس کسبی کا گورو کفن کیا۔"      ( ١٨٨٤ء، تذکرہ غوثیہ، ٢٩ )
نیست و نابود کرنا۔ (نور اللغات)۔
٤ - گور کے مردے سے بدتر ہو جانا
کمال لاغر اور ضعیف ہو جانا، نہایت برا حال ہو جانا۔ ہوگئی گور کے مردے سے ہوں بدتر بنو جان صاحب کی جدائی سے عجب حال ہوا      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، دیوان، ١٨٨ )
  • A grave
  • tomb