کس

( کَس )
{ کَس }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - طاقت، زور، بل، تاب۔
"چکھی دے کے دو دو چونچیں لڑاتے اور بٹیر کا کس دیکھتے ہیں۔"      ( ١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٠، ٩:٢٣ )
٢ - تلوار کی لچک جس سے اس کی خوبی معلوم ہوتی ہے۔
 کندن سے بھی بڑھ چڑھ کے دمکتی ہوئی تلوار بازو کا وہ کس اور وہ لچکتی ہوئی تلوار      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، مراثی، ٨٨:٢ )
٣ - سونے کو کسوٹی پر لگانا، سونے کو تپانا، امتحان کرنا، جانچ کرنا، پرکھہ، جانچ۔
"وہ امتحان میں ثابت قدم اترتا ہے، کسوٹی پر سونے کا کس دیتا ہے، لاریب کہ وہ کندن ہے۔"      ( ١٩٤٠ء )
٤ - تاؤ، قوام، (نوراللغات)
٥ - [ سنگ تراشی ]  پتھر پر ٹانکی سے لگائے ہوئے خط کا نشان، پتھر کو تراشنے یا خاص ڈھب سے توڑنے کا خط، با خطّی علامت۔ (ماخوذ: اصطلاحات پیشہ وراں، 71:1)
٦ - (قدیم) ارادہ، مقد۔
 ہر چند نکالنے کیا کس جو کاڑ پتل بٹھانوں پارس      ( ١٧٠٠ء، من لگن، ١٢٢ )
٧ - پہاڑی بارش کا پانی بہنے والا نالہ۔
"سماہنی کے کس میں دو بڑی ڈابیں ہیں، ڈابوں میں ہر وقت پانی موجود رہتا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، اوراق، لاہور، دسمبر، ١١٨ )
٨ - مضبوطی، استحکام، تقویت۔
 ہر سخن سے نفس کی تنبیہ ہے بس عقل کے بازو کو ہووے جس سے کس      ( ١٧٩١ء، ریاض العارفین، ١٢٦ )
٩ - (قدیم) برکت، تاثیر۔
 تج ہات کے اثر کا کس ہے پرس سے اگلا کنچن سریر ہووے تج ہاتھ کے چھپاکا      ( ١٦٧٢ء، کلیات شاہی، ١١٣ )
١٠ - "کس" کے معنی کھال اور چھال کے ہیں۔ (اردو، کراچی، جولائی تا ستمبر، 1988، 115)
١١ - ڈھانچہ، پنجر۔
 عاشقِ لاغر کی تیرے انگلیاں تنکاسی ہیں کیا کریں تقریر اوس سے اپنے کس کی تیلیاں      ( ١٨٣٨ء، نصیر دہلوی، چمنستان، سخن، ١٤٢ )
  • Assay
  • test
  • proof;  the decoction of a colouring substance;  extract;  essence
  • virtue;  strength
  • power;  tenacity;  labour
  • toil.