زور

( زور )
{ زور (واؤ مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں اسم، اسم صفت اور گا ہے بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے "دیوان" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : زوروں [زو (واؤ مجہول) + روں (واؤ مجہول)]
١ - شدت، زیادتی، کثرت،
 دوڑے بدن میں وہ خارش کا زور وہ کھٹمل کی الفت کہ جیسے چکور      ( ١٨٥٩ء، حزن اختر، ٣٥ )
٢ - جوش۔
"اس نے لخمی بادشاہ عمرو بن لہذ کو بڑے زور سے نصیحت کی کہ اپنے باپ المنزر الثالث کا قصاص لے"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٤٩:٣ )
٣ - تصرف، نفوذ (بیشتر چلنا کے ساتھ)۔
"جمعیتہ العلماء کا زور تھا"      ( ١٩٤٥ء، حکیم الامت، ٧ )
٤ - عجیب و غریب، انوکھا۔
 کھب گئی دل میں ہمارے چھب تری اے جامہ زیب زور ہی دستی ہے تجھکو نیک چولی واہ وا      ( عاشق (دو نایاب زمانہ بیاضیں، ٧٦) )
٥ - اچھا، عمدہ۔
 رنگ لائی ہے زور فصل بہار گل تو کیا عکس گل سے سرخ ہیں خار      ( ١٨٥٧ء، مثنوی بحرالفت، ٧ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : زوروں [زو (واؤ مجہول) + روں (واؤ مجہول)]
١ - قوت، توانائی، طاقت۔
"ان کے قلم اور آواز میں بڑا زور تھا"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١١٨ )
٢ - اصرار، توجہ۔
"میں ان کے دلائل کے زور تسلیم کرتا ہوں"      ( ١٩٣٨ء، خطبات قائداعظم، ١٥١ )
٣ - بل، بنیاد، سبب، بنا۔
"مولانا کی ہستی اس وقت ایک زار ایک معمہ تھی جمعیت العلما کا زور تھا"      ( ١٩٤٥ء، حکیم الامت، ٧ )
٤ - حرکت یا عمل کی تندی وقوت یا اس کا دباؤ، ریلا، طاقت۔
"بیرونی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے جسم کے اندر جو قوت عود کرتی ہے اسے زور کہتے ہیں"      ( ١٩٦٧ء، آواز، ٣٠ )
٥ - قوت کا مظاہرہ، طاقت آزمائی۔
 ایک پیسہ میں یہ گنگا پار ہے ورنہ دس کا زور بھی بیکار ہے      ( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٢٦ )
٦ - حملہ،بیش قدمی۔
 حق بھائی کی الفت کا ادا کرتا تھا بھائی ہر زور پہ بھائی کی ثنا کرتا تھا بھائی      ( ١٨٣٥ء، سب رس، ٧١ )
٧ - زبردستی، جبر۔
 الغرض ثابت یہ امر اس کو ہوا زور سے شیلا کو نعمت لے گیا      ( ١٩٣٦ء، جگ بیتی، ١٨ )
٨ - ظلم، زیادتی۔
"بس تو یہ چاہتا ہے کہ ملک میں (زورو) ظلم کرتا پھرے"      ( ١٨٩٥ء، ترجمۂ قرآن مجید، نذیر احمد، ٥١٥ )
٩ - وزن بوجھ۔
 یا نبیۖ اب آسرا ہے آپ ہی کی ذات کا کہہ دیا دنیا نے مجھ سے میں سراپا زور ہوں      ( ١٩١٩ء، درشہوار، بے خود، ٤٦ )
١٠ - قابو، اختیار، بس، قدرت، سکت۔
"ان کا قوت ارادی پر اتنا زور تھا کہ وہ جب کبھی جس چیز کے لیے سوچتے پورا کر کے ہی دم لیتے"      ( ١٩٨٨ء، جنگ، کراچی، ١٥، جولائی، ١٢ )
١١ - قوت واثر۔
"مولوی شبلی صاحب کو زور کا تار دیں"      ( ١٩٠١ء، تاریخ نثر اردو، ٥٢٣ )
١٢ - کوشش، سعی، جدوجہد۔
"پولیٹکل نظمیں بھی ایک صاحب چھاپ رہے ہیں یہ بڑھاپے کا زور ہے"      ( ١٩١٤ء، مکاتیب شبلی، ١١٠:١ )
١٣ - [ شطرنج ]  وہ سہارا جو ایک مہرے یا پیادے کو دوسرے مہرے یا پیادے سے ہوتا ہے۔ (نوراللغات)
متعلق فعل
١ - عجب طرح سے، اچھے انداز سے، خوب۔
 میری آنکھوں نے لگا دی زور ساون کی جھڑی ہجر کی شب چرخ پر گھنگور بادل دیکھ کر      ( ١٨٧٩ء، توقیع سخن، ٢٣ )
٢ - سہارا، بھروسا، بل۔
"برسوں پہلے اپنی کامیابی کا علم ہوا تو کیوں کر ہوا اپنی عقل کے زور سے کیا"      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ٨٦ )
٣ - کسی ہنر میں کامل، صابر۔
 ہوا زور کشتی میں میلے میں ور سکیا تیر نیزے کرے سب ہنر      ( ١٦٨٢ء، رضوان شاہ و روح افزا، ١٣ )
٤ - خوب، عمدہ۔
 میرے دل شکستہ کو کہسی ہے دیکھ خلق کیا زور آئنہ ہے یہ ہووے اگر درست      ( ١٨٢٤ء، مصحفی، کلیات،١٤٩ )
١ - زور آزما ہونا
طاقتور ہونا۔"شہنشاہ ساحراں نہایت زورآزما ہے کہ نیب شمشیر سے اس کے سرکشاں دہر کانپتے اور تھراتے ہیں"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٣:١ )
٢ - زور پکڑنا
قوت حاصل کرنا، کسی اعتبار سے قوی یا مضبوط ہونا۔"ان کے طرز تحریر اور شعروشاعری میں رعایت لفظی نے بھی زور پکڑا"      ( ١٩٨٥ء، نقدحرف، ٢٩٣۔ )
  • vigorously
  • powerfully;  violently
  • forcibly;  extremely
  • very