اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - قوت، توانائی، طاقت۔
"ان کے قلم اور آواز میں بڑا زور تھا"
( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١١٨ )
٢ - اصرار، توجہ۔
"میں ان کے دلائل کے زور تسلیم کرتا ہوں"
( ١٩٣٨ء، خطبات قائداعظم، ١٥١ )
٣ - بل، بنیاد، سبب، بنا۔
"مولانا کی ہستی اس وقت ایک زار ایک معمہ تھی جمعیت العلما کا زور تھا"
( ١٩٤٥ء، حکیم الامت، ٧ )
٤ - حرکت یا عمل کی تندی وقوت یا اس کا دباؤ، ریلا، طاقت۔
"بیرونی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے جسم کے اندر جو قوت عود کرتی ہے اسے زور کہتے ہیں"
( ١٩٦٧ء، آواز، ٣٠ )
٥ - قوت کا مظاہرہ، طاقت آزمائی۔
ایک پیسہ میں یہ گنگا پار ہے ورنہ دس کا زور بھی بیکار ہے
( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٢٦ )
٦ - حملہ،بیش قدمی۔
حق بھائی کی الفت کا ادا کرتا تھا بھائی ہر زور پہ بھائی کی ثنا کرتا تھا بھائی
( ١٨٣٥ء، سب رس، ٧١ )
٧ - زبردستی، جبر۔
الغرض ثابت یہ امر اس کو ہوا زور سے شیلا کو نعمت لے گیا
( ١٩٣٦ء، جگ بیتی، ١٨ )
٨ - ظلم، زیادتی۔
"بس تو یہ چاہتا ہے کہ ملک میں (زورو) ظلم کرتا پھرے"
( ١٨٩٥ء، ترجمۂ قرآن مجید، نذیر احمد، ٥١٥ )
٩ - وزن بوجھ۔
یا نبیۖ اب آسرا ہے آپ ہی کی ذات کا کہہ دیا دنیا نے مجھ سے میں سراپا زور ہوں
( ١٩١٩ء، درشہوار، بے خود، ٤٦ )
١٠ - قابو، اختیار، بس، قدرت، سکت۔
"ان کا قوت ارادی پر اتنا زور تھا کہ وہ جب کبھی جس چیز کے لیے سوچتے پورا کر کے ہی دم لیتے"
( ١٩٨٨ء، جنگ، کراچی، ١٥، جولائی، ١٢ )
١١ - قوت واثر۔
"مولوی شبلی صاحب کو زور کا تار دیں"
( ١٩٠١ء، تاریخ نثر اردو، ٥٢٣ )
١٢ - کوشش، سعی، جدوجہد۔
"پولیٹکل نظمیں بھی ایک صاحب چھاپ رہے ہیں یہ بڑھاپے کا زور ہے"
( ١٩١٤ء، مکاتیب شبلی، ١١٠:١ )
١٣ - [ شطرنج ] وہ سہارا جو ایک مہرے یا پیادے کو دوسرے مہرے یا پیادے سے ہوتا ہے۔ (نوراللغات)