لیاقت

( لِیاقَت )
{ لِیا + قَت }
( عربی )

تفصیلات


لیق  لِیاقَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : لِیاقَتیں [لِیا + قَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : لِیاقَتوں [لِیا+ قَتوں (و مجہول)]
١ - کسی امر یا کام کی استعداد، قابلیت، صلاحیت۔
"بادشاہی نوکریاں لوگوں کو ان کی لیاقت اور قابلیت کے موافق ملیں گی۔"      ( ١٩٧٧ء، ہندی اردو تنازع، ٦٦ )
٢ - ہنر، جوہر، گن، وصف، خوبی، فضیلت۔
"اس میں کوئی لیاقت ایسی نہ تھی کہ وہ میواڑ کی رانائی کے لائق ہوتا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٣٧٥:٥ )
٣ - استطاعت، حیثیت، مقدور۔
"درگہ سالار نے کہا کہ تیری کیا لیاقت جو تو جا سکے۔"      ( ١٩٠٣ء، آفتاب شجاعت، ٧١:٢ )
٤ - کسی چیز کے حاصل کرنے کا مادہ۔
"غذا جگر میں اتنی دیر ٹھہرتی ہے کہ اس کو ایک پختگی اور ہو جاوے اور صاف خون کی صورت ہو جاوے جس کو لیاقت غذاے اعضا کی ہے۔"      ( ١٨٦٥ء، مذاق العارفین، ١٥١:٤ )
٥ - حوصلہ، ظرف، سمائی، تاب۔
"اماں سارا دن جمیل بھیا کے حسن اور لیاقت کا ذکر کرتی رہتیں۔"      ( ١٩٦٢ء، آنگن، ٥١ )
٦ - دانائی، ہوشیاری۔
"بات چیت کی تو بادشاہ کو یوسف کی لیاقت ثابت ہوئی۔"      ( ١٨٩٨ء، ترجمہ قرآن مجید، نذیر احمد، ٣٣١:١ )
٧ - شاہستگی، تہذیب، تمیز۔
"یہ تمہاری لیاقت ہے استاد سمجھتے ہو، اور ادب کرتے ہو۔"      ( ١٩٨٧ء، ابوالفضل صدیقی، ترنگ، ٢١ )