فیض

( فَیض )
{ فَیض (ی لین) }
( عربی )

تفصیلات


فیض  فَیض

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ جو اردو میں اپنے اصل معنی اور ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع   : فُیُوض [فُیُوض]
١ - فائدہ، نفع۔
"میں اگر ہجرت نہ کرتا تو ہندوستان کو میری ذات سے کیا فیض پہنچتا۔"      ( ١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ٣١ )
٢ - کرم، بخشش، عنایت، مہربانی۔
"یہ سب کچھ پاکستان کا فیض ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ٣٦ )
٣ - اثر، برکت۔
"اسی طرح آج میرے فیض سے جدید شاعری کا سرچشمہ جاری ہے۔"      ( ١٩٤٩ء، اک محشرِ خیال، ٤٨ )
٤ - [ تصوف ]  عنایتِ الٰٰہی و جذبۂ باطن (مصباح التعرف)۔
٥ - نہر کے پانی کا اس قدر زیادہ ہونا کہ وہ کناروں سے بہنے لگے، پانی کا گرنا۔ (ماخوذ: اردو قانونی ڈکشنری)۔