کلام

( کَلام )
{ کَلام }
( عربی )

تفصیلات


کلم  کَلام

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : کَلاموں [کَلا + موں (و مجہول)]
١ - بات، گفتگو، بات چیت۔
 ہوا ہے جب سے دلِ ناصبور بے قابو کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے    ( ١٩٥٧ء، نسخہ ہائے وفا، ٣٦٩ )
٢ - قول، فرمان، حکم۔
"اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندہ پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی۔"    ( ١٩١٧ء، ترجمۂ قرآن، مولانا محمود الحسن، ٧ )
٣ - [ قواعد ]  وہ عبارت جو دو یا دو سے زیادہ کلموں سے مرکب ہو۔
"کلام بات دو یا دو سے زیادہ لفظوں کا مجموعہ ہے، جو مفہوم کے اعتبار سے مکمل ہو اور جس میں کوئی ایک بات پوری پوری بیان ہو جائے۔"      ( ١٩٨٢ء، اردو قواعد، ٧ )
٤ - وہ علم جس کے ذریعے عقائد کو عقلی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں، علمِ کلام۔
"دراصل ذات الٰہیہ کی نفی و اثبات کا مسئلہ کلام و الٰہیات یا خالصاً مذہبی نقطہ نظر سے اصول و عقائد کا مسئلہ نہیں۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ١٧٣:٣ )
٥ - نظم، سخنِ منظوم، شعر، شاعری۔
"ان کا کلام اس کثرت سے نہیں چھپتا جتنا چھپ سکتا ہے۔"      ( ١٩٧٩ء، زخم ہنر، ٢٠ )
٦ - گفتگو میں آواز کا اتار چڑھاؤ، لہجہ، بول چال۔
"لہجے سے الفاظ پر زور ڈالنا جسے انگریزی میں امفیس کہتے ہیں، اس کا تعلق کلام سے ہے کلمے سے نہیں۔"      ( ١٩٣٤ء، منشورات کیفی، ٥٧ )
٧ - عذر، اعتراض، حجت۔
 کہتے ہو تم یہی سزا ہے تری ہم کو اس میں بھی کچھ کلام نہیں      ( ١٩٥١ء، کلیات حسرت موہانی، ٢٥٥ )
٨ - شبہ، شک۔
"اس میں کلام نہیں کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، مقالات عبدالقادر، ١٦ )
٩ - سوال و جواب، غرض، واسطہ۔
 تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے      ( ١٨٦٩ء، دیوان غالب، ٢٣٦ )
  • word
  • speech
  • discourse;  a complete sentence or proposition;  composition
  • work;  anything said (or to be said) against
  • objection
  • question.