چاند

( چانْد )
{ چانْد (ن مغنونہ) }
( سنسکرت )

تفصیلات


چَنْدرہ  چانْد

اصلاً سنسکرت زبان کے لفظ 'چندرہ' سے ماخوذ ہے اور قیاس کیا جاتا ہے کہ پنجابی کے لفظ 'چندو' سے ماخوذ ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٢٦٥ء، میں "سیرالاولیا (مقالات شیرانی)" میں مستعمل ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - اجرام فلکی میں ایک سیارہ جو زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور سورج کی روشنی منعکس کرتا ہے۔
"چاند رخصت ہوا۔ تارے ختم ہوئے محفل برہم ہوئی۔"      ( ١٩١٠ء، گرداب حیات، ٤٤ )
٢ - قمری مہینہ۔
"قبلۂ عالم! یہ برس سارا نحس ہے، کسی چاند میں کوئی تاریخ سعد نہیں ٹھہرتی۔"    ( ١٨٠٦ء، باغ و بہار، ٢٢٠ )
٣ - قمری مہینے کا دن یا تاریخ۔
 تیغِ ترکش کمر باند محرم کیری دسویں چاند    ( ١٥٠٣ء، نوسرہار (اردو ادب)، ٦، ٨٣:٢ )
٤ - وہ آہنی یا برنجی پُھلّی جو ڈھال میں ہوتی ہے۔
 تیغ اوس کے معر کے میں جو نکلی ہلال وار شرمندہ ہو کے چاند سیر سے نکل گیا      ( ١٨٥٨ء، امانت، دیوان، ٣٠ )
٥ - جانوروں کی پیشانی کا سفید داغ یا ٹیکا؛ ایک بھونری کا نام۔
"جبین فرس پر بھونری چاند بشکل مدور ہوتی ہے۔"      ( ١٨٧٦ء، رسالہ سالوتر، ٢١:٢ )
٦ - ایک زیور جو ہلالی شکل کا ہوتا ہے (بیشتر ماتھے یا گلے میں پہنا جاتا ہے)، جھومر کا ترشا ہوا ہلال۔
"سونے کے طوق کا چاند جو خورشید بہو کے اترتے وقت . ٹوٹ کے گر پڑا تھا وہ بھی مل گیا۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٢٤ )
٧ - وہ گول نشان جو بندوق وغیرہ کے نشانے کی مشق کے لیے بنایا جاتا ہے۔
"بندوق کی آواز . اور چاند پرگولی لگنے کا دھماکہ دونوں ایک ہی وقت سنائی دئے۔"      ( ١٩٢٠ء، ہندسی مخروطات، ٣١٧ )
٨ - (بادشاہوں کے پہننے کا سونے چاندی اور جواہرات کا) تاج، افسر، مکٹ۔ (فرہنگ آصفیہ)
٩ - بیٹا یا بیٹی، پیارا یا پیاری، مجبوب۔
"کیا خواب میں ڈر گئی تھیں یا دشمنوں کو کوئی آسیب نظر آیا تھا کچھ تو بولو میری چاند"      ( ١٩٦٣ء، ساڑھے تین یار، ٩ )
١٠ - مہینے کا اخیر دن؛ بند تاریخ۔ (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ)
١١ - رکاب کا اوپری حصہ جو ہلال سے مشابہ ہوتا ہے۔
 شام ابد کو دوڑ کے چھو آئے چاندنی اوس کی رکاب کا ہو اگر آشکار چاند      ( ١٨٧٣ء، کلیات منیر، ٧٤:٣ )
١٢ - سرکا اوپری درمیانی حصہ، کھوپڑی کے بیچ کا حصہ، چندیا۔
"اپنا ڈیڑھ پاؤ کا جوتا اس صفائی سے نکال کر میری چاند پر دیا ہے کہ نظرنے کام نہ کیا۔"      ( ١٩٣١ء، روح لطافت، ١١١ )