چمک

( چَمَک )
{ چَمَک }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے ماخوذ ہے اردو میں عربی رسم الخط میں اصل معنی کے ساتھ مستعمل ہے اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٨ء کو "دیوان میر سوز" کے قلی نسخے میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - جھلک، روشنی، تابانی، بورڈ۔
"چہرے پر صحت کے بوڈ سجائے آنکھوں میں چمک انداز میں بے تکلفی"      ( ١٩٨٢ء، ہندیاترا، ٥٢ )
٢ - تیزی، طراری، تڑپ، پھرتی۔
 لڑتے تھے کس چمک سے وہ صفدر الگ الگ دو نیچے دکھاتے تھے جوہر الگ الگ      ( ١٨٧٥ء، مونس، مراثی، ٧٣:٣ )
٣ - شان و شوکت، آب و تاب؛ سازو سامان؛ رونق۔
"چہرے پر صحت تو تھی پر چمک نہ تھی"      ( ١٩٨٢ء، ہندیاترا، ٥٥ )
٤ - ہلکا درد جو رک رک کر اٹھتا ہے، تپک۔
 روشنی زیر فلک کیسی ہے آج یہ دل میں چمک کیسی ہے      ( ١٩١١ء، گل کدۂ عزیز، ١١٦ )
٥ - [ کہار ]  پالکی یا ڈولی لے جاتے وقت اگلا کہار پچھلے کہار کو خبردار کرنے کے لیے بطور اشارہ بولتا ہے جب راہ میں کسی جانور کا خطرہ ہو۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 5، 154)
٦ - عام پرندے شکاری پرندے کے خوف سے اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور جب کوئی شکاری پرندہ دیکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے ہم جنسوں کو خبردار کرنے والی آواز کو چمک یا دمہ کہتے ہیں۔
"چمک یا دمہ کی اصطلاح کے بیان میں پرندوں کی بولی کا بھی کچھ تذکرہ آچکا ہے"      ( ١٨٩٧ء، سیر پرند، ٧٤ )