تاب

( تاب )
{ تاب }
( فارسی )

تفصیلات


تافتَن  تاب

فارسی زبان کے مصدر 'تافتَن' سے مشتق ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - طاقت، مجال، قدرت۔
"مجھ میں کھڑے ہونے کی تاب نہ تھی۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ١٥١:٣ )
٢ - چمک، روشنی، نور، فروغ، آب۔
 تاب انجم کی دکھاتی ہے فلک بن کے زمیں خشک ہوتی نہیں گر کر عرق یار کی بوند      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٨٧ )
٣ - حرارت، گرمی، آگ۔
 اے تاب برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی کچھ رہ گئے ہیں خار و خس آشیاں ہنوز      ( ١٨٧٩ء، شیفتہ، دیوان، ٢٦ )
٤ - پیچ، بل، الجھن۔
 بجا ہے ترے حسن کی تاب سوں تری زلف کھاتی ہے گر پیچ و تاب      ( ١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٥٦ )
٥ - صبر و تحمل، برداشت۔
"وقت نازک آ جانے سے نثار کو تاب نہ رہی ایک ہی سانس میں کہہ گئے۔"      ( ١٩٣٢ء، ریاض، نثر ریاض، ٣٩ )
٦ - (مرکبات میں بطور جز و دوم) بمعنی روشن کرنے والا، جیسے : جہاں تاب، ماہتاب۔
"- تاب، تافتن سے (چمکنا، پھرنا)، عالم تاب، جہاں تاب۔"    ( ١٩٢١ء، وضع اصطلاحات، ٧٧ )
٧ - مروڑا ہوا، بل دیا ہوا، جیسے : زلف پرتاب۔ (نوراللغات؛ جامع اللغات)
٨ - گرمی پہنچایا ہوا، جیسے : آب آہن تاب (وہ پانی جس میں تپتا ہوا لوہا بجھایا گیا ہو)۔ (نوراللغات؛ جامع اللغات)
٩ - [ نفسیات ]  بعض نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ رنگوں میں شدت کی صفت بھی ہوتی ہے جسے وہ تاب کہتے ہیں (نفسیات کی بنیادیں، 285)