خار

( خار )
{ خار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی اور حالت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : خاروں [خا + روں (و مجہول)]
١ - پودوں، درختوں اور جھاڑیوں پر نکلی ہوئی نکیلی روئیدگی؛ سخت اور باریک کانٹا، سُول۔
 پاؤں میں خار کرے ناخن تدبیر کا کام چاہیے لطف ترا پھر تو ہیں سب عقدے حل      ( ١٨٧٢ء، مراۃ الغیب، ٣٨ )
٢ - کسی جاندار کے جسم پر یا اس کے اندر جسم کی ساخت میں موجود باریک نکیلے اجزا یا ان میں سے ایک جو اپنی ساخت میں ہڈی یا پروں کی ڈنڈی سے مشابہ ہوتا ہے۔
"ان کی زبان پر سخت خار ہوتے ہیں جن کی نوکیں پیچھے کو مڑی ہوتی ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٢٦٥ )
٣ - کسی دھات کی نوک دار کیل جو اسلحہ یا زیورات وغیرہ میں ہوتی ہے، تار وغیرہ میں مڑواں نوکیں۔
"کوئی اپنے خود کو چمکا رہا ہے، کوئی مہمیز کے خاروں کو تیز کر رہا ہے۔"      ( ١٩٠٥ء، شوقین ملکہ، ٧ )
٤ - مرغ کے پنجے سے اوپر کا کانٹے نما ابھار جو اس کے پنجے کی انگلیوں سے مشابہ ہوتا ہوے۔
"مثل خانگی مرغیوں کے ان کے (جنگلی مرغی کے) نروں کے پیر پر بھی خار ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، قطب یار جنگ، شکار، ١٠٢:١ )
٥ - [ مجازا ]  خلش، کھٹک، تکلیف، ذہنی پریشانی۔
 کاش نکلے آپ کا ارمان عیش بے خلش اور مرے سینے سے نکلے خارِ غم یعنی یہ دم      ( ١٩١٩ء، نقوش مانی، ٧٩ )
٦ - حسد، جلن، رشک۔
 دیا پھولوں کا گہنا سوت کو یہ خار ہے مجکو نہ کیوں دل پھول سا کمھلائے اب اے نوبہار اپنا      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، دیوان، ١٠٨ )
٧ - [ مجازا ]  ڈاڑھی کے سخت بال، ڈاڑھی؛ ڈنک؛ پورا چاند؛ سخت پتھر۔ (نوراللغات؛ جامع اللغات)
٨ - ناگوار، دوبھر، باعث آزاد (بات شے یا شخص)۔
 اوڑھوں اور نہ دیکھیں وہ جن کی سب بہار ہو ایسا اوڑھنا ہی کیا جو بدن کو خار ہو      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ٤ )
١ - حار کھانا
حسد کرنا، رشک کرنا، جلنا، دشمنی کرنا۔"وہ تیتو میر کی بڑھتی ہوئی تحریک سے پہلے ہی خار کھا رہا تھا۔"      ( ١٩٧٥ء، آزادی کے مجاہد، ٢٤ )
کانٹوں سے پیٹ بھرنا، صبر و ضبط کرنا، صبر شکر سے رہنا۔ شتر برد باری سے ہے خار کھاتا نصیبوں میں ہے ہر تحمل کے کانٹا      ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ١٩:١ )
  • a thorn
  • prickle
  • spine;  thistle
  • bramble;  a spur
  • a cock's spur;  bristle
  • hair