خواجہ

( خواجَہ )
{ خا (و معدولہ) + جَہ }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : خواجے [خا (و معدولہ) + جے]
جمع   : خواجے [خا (و معدولہ) + جے]
جمع غیر ندائی   : خواجوں [خا (و معدولہ) + جوں (و مجہول)]
١ - صاحب و مالک، آقا، سردار، حاکم۔
 یہ عشق ہی تھا کہ محمود نے ایازی کی نہیں تو خواجہ کو کیا تھی غلام سے نسبت      ( ١٩٤٧ء، نوائے دل، ٧٦ )
٢ - توازن میں سادات کا لقب۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٣ - وہ شخص جس کی ماں سیدانی اور باپ شیخ ہو (برصغیر میں)۔
"کشمیری بھانڈ کی اولاد خواجہ کیسے بن گئی۔"    ( ١٩٤٣ء، دِلی کی چند عجیب ہستیاں، ٧ )
٤ - وہ شخص جس کے خصیے نکال دیئے گئے ہوں، جس کے عضو تناسل نہ ہو، خصی مرد، ہیجڑا۔
"جسولنیاں خواجے باہر کی عرض معروض بادشاہ سے کر رہی ہیں۔"      ( ١٨٨٥ء، بزم آخر، ١١ )
٥ - امیرسوداگر۔ (جامع اللغات)
  • Lord
  • master
  • owner;  a man of distinction
  • a respectable man
  • a gentleman;  a rich merchant