سرخ

( سُرْخ )
{ سُرْخ }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٥٧ء میں "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - [ وزن ]  ماشے کا آٹھواں حصہ، رتی، گھنگچی۔
"خوراک ایک ایک سرخ صبح و شام شہد خالص میں استعمال کریں۔"      ( ١٩٣٧ء، مسلک الدرر، ٢٧ )
٢ - [ گنجفہ - مونث ]  چھوٹی بازیوں میں سے ایک بازی کا نام جس کے پتوں کا رنگ سرخ اور نقطے کی شکل سفید رنگ کا چھایا ہوتا ہے۔
 جو کھیل میں لب و رندان دکھائے گنجفے کے سفید سرخ کی بازی کو بھی غلام کرے      ( ١٨٦٧ء، رشک (مہذب اللغات) )
٣ - [ مذکر ]  ایک چھوٹی سی چڑیا کا نام جس کے پر لال ہوتے ہیں، لال۔
 پیالیاں میں بلبل میوے پیش دست دسیں سرخ کے نین لال سوں مست      ( ١٦٥٧ء، گلشن عشق، ١٣٨ )
٤ - [ کنایہ ]  کمیونسٹ نظریات کا حامل، اشتراکیت کا پیرو۔
"حفیظ احمد خاں جو خیالات کے لحاظ سے بڑا پکا سرخ بنتا تھا اور طالب علمی کے زمانے میں کرسٹابل سے شادی کرنے سے پہلے روس تک ہو آیا تھا۔"      ( ١٩٤٧ء، میرے بھی صنم خانے، ٢٣٤ )
صفت ذاتی ( واحد )
١ - جس کا رنگ شفق کی طرح ہو، لال رنگ کا، بھبوکا، چہچا۔
"تراب کے مختلف رنگ ہو سکتے ہیں جیسے کہ سفید، سیاہ، زرد، سرخ اور براؤن وغیرہ۔"      ( ١٩٦٧ء، عالمی تجارتی جغرافیہ، ٩١ )
٢ - مہنگا، تیز، گراں۔
"آج کل بھاؤ سرخ ہے۔"      ( ١٨٩٨ء، فرہنگ آصفیہ، ٦٥:٣ )