دغا

( دَغا )
{ دَغا }
( عربی )

تفصیلات


دغل  دَغا

عربی زبان سے اسم مشتق 'دغل' کی مفرس صورت ہے۔ فارسی سے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَغے [دَغے]
جمع   : دَغے [دَغے]
جمع غیر ندائی   : دَغوں [دَغوں (و مجہول)]
١ - توقع کے خلاف دھوکا دینے یا مکاری کرنے کا عمل، فریب، دم، جھانسا، جل، مکر، بے ایمانی۔
"وہ عاقلہ بولی کہ تم جانو لیکن پھر کچھ دغا کیا چاہتے ہیں۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٥٥ )
٢ - وقت پر ساتھ نہ دینے یا رفاقت نہ کرنے کا عمل، بے مروتی (کسی ضرورت یا مجبوری کے تحت)۔
"میری آنکھیں میرے ساتھ دغا کرتی ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ١١٠ )
٣ - [ قانون ]  امور واقعی کے اخفا سے یا دوسرے طور پر دھوکا دینے یا بددیانتی سے کسی بات پر ترغیب دینے کا عمل۔ (ماخوذ : مجموعۂ تعزیراتِ ممالک محروسۂ سرکار عالی)
  • Deceit
  • imposture
  • treachery;  cheat
  • fraud
  • artifice
  • delusion