قبلہ

( قِبْلَہ )
{ قِب + لَہ }
( عربی )

تفصیلات


قبل  قِبْلَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے اعتبار سے من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - (کلمۂ تعظیمی) بزرگ یا عزیز شخص کے لیے۔
"علامہ آرزو لکھنوی نے مؤدب ہو کر جواب دیا قبلہ زندگی کا کیا بھروسہ۔"      ( ١٩٨٩ء، جنگ، کراچی، ١٥ نومبر، ٩ )
٢ - [ طنزا یا مزاحا ]  بہت چالاک آدمی۔
"قبلہ ایک بات بتائیے گاندھی جی کے ساتھ ان کی بکری بھی تو تھی۔"      ( ١٩٨٤ء، زمیں اور فلک )
٣ - [ تصوف ]  ہر مطلوب اور مقصود کہ دل جس کی طرف متوجہ ہو۔
"پیغمبر تو خلق کے حق پر یوں خوبی کیے ولے ہر کوئی نعمت نہیں لے سکے ہور اپسکوں اس مقام تے دور رکھے ہور جکوئی اور مقام ہور مقصود ہور قبلہ اپنا کیے سو پیغمبر سوں راضی ہوئے۔"      ( ١٦٠٣ء، شرحِ تمہیداتِ ہمدانی، (ترجمہ)، ١٧٢ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : قِبْلے [قِب + لے]
جمع   : قِبْلے [قِب + لے]
جمع غیر ندائی   : قِبْلوں [قِب + لوں (واؤ مجہول)]
١ - جس کی طرف منہ کر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں، خانہ کعبہ، جس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جاتی ہے۔ قبلہ کی سمت۔
"قبلہ رو ہو کر مرد مومن کی طرح خندہ پیشانی سے داعئی اجل کو لبّیک کہا۔"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٢٧ )