طبیعت

( طَبِیعَت )
{ طَبی + عَت }
( عربی )

تفصیلات


طبع  طَبْع  طَبِیعَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی اسم مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : طَبِیعَتیں [طَبی + عَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : طَبِیعَتوں [طَبی + عَتوں (و مجہول)]
١ - فطرت، جبلت، سرشت، خمیر، خلقی خاصیت۔
"جو کچھ بھی دیکھنے میں آتا ہے جس کا نام ہم مخلوقات یا طبیعت رکھتے ہیں وہ سرے ہی سے موجود نہ تھا اور نہ اب موجود ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، خدا و آئین خدا، ١١ )
٢ - عادت، خصلت، سیرت۔
"مولوی سعید طبیعت کے مولوی ہی تھے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٦٢٨ )
٣ - ذہن، سمجھ، تخیل، فکر۔
"اگرچہ یہ شعر عاشقانہ ہے مگر سجدہ کے لفظ نے عارفانہ بھی اس کو بنا دیا اور طبیعت کو دوسری طرف دوڑا دیا۔"      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، فکر بلیغ، ٨٣ )
٤ - [ مجازا ]  مزاج، دل و دماغ، نفس و روح کی مجموعی کیفیت (جو فطرت نہ ہو)۔
"انسان کی طبیعت اور ارادہ کو اس کے عمل سے ملا کر دیکھا جاتا ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٣٦ )
٥ - [ مجازا ]  جسمانی نظام (صحت و مرض کے اعتبار سے)، قوت، جسمانی۔
"نہانے دھونے کے بعد طبیعت بحال ہوئی۔"      ( ١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ٦ )
٦ - [ مجازا ]  دل، جی، نیت۔
 شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے      ( ١٩٧٨ء، ابن انشا، دل وحشی، ٤٤ )
١ - طبیعت اُچاٹ ہونا
دل بے زار ہونا۔"لوگ جو بھائی جان کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں ایسی اُدم مچاتے ہیں کہ طبیعت اُچاٹ ہوئی چلی جاتی ہے"      ( ١٨٧٧ء، توبتہ النصوح، ١٢١۔ )
٢ - طَبِیعَت باغ باغ ہونا
خوشی سے بانچھیں کِھل جانا، بہت خوش ہونا۔"محلے کے اسکول میں اسی روز پہلا یوم اقبال منایا جا رہا تھا وہاں پہنچا تو طبیعت باغ باغ ہو گئی"      ( ١٩٨٣ء، دیگر احوال یہ کہ، ٢٣۔ )
٣ - طبیعت بگڑنا
بیمار ہو جانا، مرض کا حملہ ہونا۔"حضرت ثوبان سے صحابۂ کرام نے پوچھا کیا بات ہے? طبیعت کیوں بگڑ رہی ہے، کوئی علاج ہو رہا ہے کہ نہیں"      ( ١٩٨٠ء، تجلی، ١٥۔ )
برہم ہونا، ناراض ہونا، غصہ آنا۔"اوسان درست تھے، مگر طبیعت بہت ہی بگڑی ہوتی تھی، صبح تک روتا رہا"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٧٣۔ )
متلی ہونا، جی متلانا۔ (نوراللغات)
  • Nature
  • disposition
  • temperament;  a humour (one of the four);  complexion;  genius;  mind;  temper;  essence