اسم مجرد
١ - [ نباتات - مجازا ] بیخ، جڑ۔
"جب اصل پختہ ہوتی ہے تو درخت قائم رہتا ہے۔"
( ١٩٠٢ء، آفتاب شجاعت، ٩٩:١ )
٣ - حقیقت۔
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٨٩ )
٤ - کسی چیز کی بنیاد، اساس؛ سبب۔
مراسم بھی وہ جن کی شریعت اسلام میں کہیں کوئی اصل نہیں۔"
( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٣٠١:٢ )
٥ - ماخذ، منبع، سرچشمہ۔
"الفاظ کی تحقیق اور اصل سے بہت کم بحث کی گئ ہے۔"
( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٧ )
٦ - قائم بالذات، جو کسی شے سے ماخوذ یا کسی شے پر مبنی نہ ہو۔
"اصل وہی وصف باطن ہے۔"
( ١٨٨٤ء، تذکرۂ غوثیہ، ١٣٤ )
٧ - نقش اول یا پہلی صورت، اصلی یا معتبر شے، نقل کے بالمقابل۔
"ان کی اور مرزا کی تحریر میں وہی فرق ہے جو اصل اور نقل یا روپ اور بہروپ میں ہوتا ہے۔"
( ١٨٩٧ء، یادگار غالب، ١٧٨ )
٨ - وہ سرمایہ جس پر منافع یا سود لیا جائے، مول، راس المال۔
"لوگ اپنا اصل اس میں لگانا پسند نہیں کرتے بلکہ جو اصل پہلے سے لگا ہوا ہے اس میں بھی تخفیف ہونی شروع ہوتی ہے۔"
( ١٩٣٧ء، اصول و طریق محصول، ١٢٣ )
٩ - واقعہ، (وقوع میں آئی ہوئی) صحیح بات۔
"فیصل کے بھدے پن پر - مور کے پاؤں کی مثل اصل ہو گئ۔"
( ١٩٣٠ء، چارچاند، ١٤ )
١٠ - حیثیت، بساط، قیمت (اکثر تحقیر کےلیے)۔
"اس میں کچھ شک نہیں کہ دو لاکھ بہت بڑی رقم ہے، مگر ان کے نزدیک کیا اصل ہے۔"
( ١٩٣١ء، رسوا، امراو جان ادا، ١٣٣ )
١١ - نسل، نژاد، خلقت، ذات، خاندان۔
"مرزا کے خاندان اور اصل و گوہر کا حال - یہ ہے۔
( ١٨٩٧ء، یادگار غالب، ١٣ )
١٢ - کوئی تحریر یا تصنیف جس کا ترجمہ شرح خلاصہ یا نقل کی جائے : ابتدائی مسودہ یا متن، دستاویز۔
"ان کی کوشش یہ تھی کہ ترجمے میں حتی الامکان اصل کی سی سادگی - باقی رہے۔"
( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٣٥٠ )
١٣ - وہ نقشہ، خاکہ، صورت یا تصویر جس کا چربا یا عکس اتارا جائے۔
صورت سے کام اصل کا نکلے یہ محال ہے کھولا کبھی نہ عقدۂ پرویں ہلال نے
( ١٨٧٢ء، عاشق، فیض نشان، ٢٢٣ )
١٤ - [ دینیات ] عقیدہ جس پر دین کی بنیاد ہو، رکن دین، فرع کے بالمقابل۔
عقائد میں حضرت کا ہم داستان ہو ہر اک اصل میں فرع میں ہم زباں ہو
( ١٨٧٩ء، مسدس حالی، ٥٧ )
١٥ - [ منطق ] وہ کلمہ یا مسلمہ حقیقت جس پر استدلال مبنی ہو۔
علم حقیقی علم مجازی تیرے حلول ساری و طاری اصل مبانی نقل معانی، عقل کو تیرے عیش مہیا
( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٢٦٨ )
١٦ - [ میراث ] باپ، دادا، پردادا اور ان کے باپ، دادا، پردادا وغیرہ۔ (نورالہدایہ (ترجمہ)، 18:2)