گم

( گُم )
{ گُم }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور صفت مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - کھویا ہوا۔
 کیسے سیلاب صفت لوگ ہوئے پیاس میں گم کیا سمندر تھے کہ صحرا نظر آئے اب کے      ( ١٩٧٥ء، دریا آخر دریا ہے، ٤٥ )
٢ - رائیگاں، ضائع، بے کار، کھویا گیا، بے حقیقت۔
"اتفاق زمانہ سے وہ رنگین فسانہ یادگار زمانہ گم ہو گیا۔"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٣ )
٣ - ضم، مدغم۔
"یہاں افراد کی شخصی حیثیت گم ہو کر رہ جاتی ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، قومی زبان، کراچی، مئی، ٥٩ )
٤ - نظروں سے اوجھل، غائب، غیر حاضر، پوشیدہ۔
"غالب جیسی شخصیتیں اس میں گم ہو جاتی ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، غالب فکر و فن، ٧٠ )
٥ - سرکرداں، حیران، ششدر۔
"وہ ایک دم ایسے انکشاف پر بالکل گم سا ہو گیا تھا۔"      ( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ٣٣٨ )
٦ - محو، غرق، بے خود، مبہوت۔
"کاموں کے ہجوم میں اس طرح گم ہو گیا کہ خط بھیجنے کا خیال نہ رہا۔"      ( ١٩٤٥ء، کاروان خیال، ١٣١ )
  • Lost;  wanting;  missing;  absent;  invisible;  wanderings;  distracted
  • confounded