تسبیح

( تَسْبِیح )
{ تَس + بِیح }
( عربی )

تفصیلات


سبح  تَسْبِیح

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : تَسْبِیحات [تَس + بی + حات]
١ - خدا کو پاکی سے یاد کرنا، خدا کی پاکیزگی بیان کرنا۔
"ذکر کی بابت جو کچھ بھی بیان ہو چکا ہے اس کے علاوہ وہ تین اور بھی بیان کئے جاتے ہیں وہ تین یہ ہیں، تسبیح تحمید، تکبیر۔"      ( ١٩٢٨ء، مرزا حیرت، حیات طیبہ، ٩٧ )
٢ - سودانوں کی مالا، سجہ، سمرن۔
"ہاتھ میں پرانی وضع کے بزرگوں کی جریب، اکثر تسبیح بھی ہاتھ میں ہوتی تھی۔"      ( ١٩١٠ء، مکاتیب امیر مینائی، ١٣ )
٣ - [ مجازا ]  ورد، وظیفہ، یاد کرنا، بار بار یاد کرنا۔
 ہوائے شوق میں شاخیں جھکیں خالق کے سجدے کو ہوئی تسبیح میں مصروف ہر پتی زباں ہو کر      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١٣٧:١ )
٤ - [ مجازا ]  رٹ، بار بار ذکر کرنا، کسی کو بہت زیادہ یاد کرنا۔
"نام سے تو اتنی نفرت اور پھر دن رات اسی کی تسبیح۔"      ( ١٨٨٥ء، فسانۂ مبتلا، ٢٢٢ )
٥ - ایک قسم کے پودے کا نام جس کے کالے کالے بیج تسبیح کے دانوں سے مشابہ اور پھول سرخ ہوتا ہے، عقیق البر۔ (فرہنگ آصفیہ)
٦ - سبحان اللہ سبحان اللہ کہنا، خدا کو یاد کرنا۔
"فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ جب حادث ہو کوئی حادثہ تو تسبیح کہے۔"      ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ، ١٣٤ )
٧ - [ مجازا ]  سو مرتبہ
"ایک تسبیح صبح و شام پڑھ لیا کرو۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات )
  • the declaring of God to be far removed or free from every imperfection of impurity
  • magnifying or praising God (saying subhana'llah
  • 'I extol the perfection of God';  the act of praying;  a string or chaplet of beads
  • a rosary