ترش

( تُرْش )
{ تُرْش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٠ء کو "من لگن" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - کھٹا (ذائقے میں)۔
"ہر قسم کا سیب . نہ کوئی ترش چیز کھائے۔"      ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٥١١:٤ )
٢ - ناخوش، ناراض۔
 دیر ملنے کا اگر میں نے گلہ کچھ بھی کیا روکھے پھیکے ہوئے پھر ہوکے ترش فرمایا      ( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ٢٣٨:١ )
٣ - برا، ناپسندیدہ۔
"گاہک کمی بیشی کرنی چاہتے ہیں . تو وہ خفا ہوتا ہے اور ترش برتاؤ کرتا ہے۔"      ( ١٩١٩ء، آپ بیتی، ٥١ )
٤ - بد دماغ، سخت بدمزاج، روکھا۔
"گیان شنکر نے ترش ہو کر کہا جا کہہ دے آپ کو نیچے بلاتے ہیں۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٢٨:١ )