سیاہی

( سِیاہی )
{ سِیا + ہی }
( فارسی )

تفصیلات


سِیاہ  سِیاہی

فارسی سے اُردو میں دخیل اسم صفت 'سِیاہ' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقہ کیفیت بڑھانے سے 'سیاہی' بنا۔ اُردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٥٦٢ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - کالک، کالا پن، سفیدی کی ضِد۔
"جتنا کہ فاصلہ آنکھ اور سیاہی کے آخری حصے کے درمیان ہو جوکہ آنکھ کا اکمیل ہے۔"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی (ترجمہ) ٦١ )
٢ - تاریکی، اندھیرا، روشنی کا نہ ہونا، اُجالے کی ضد، ظملت۔
 نظر آئے نہ مجھے بصد فنا شکلِ عذاب اتنی گہری تو ہو اے قبر سِیاہی تیری      ( ١٨٧٨ء، گلزارِ داغ، ٢٣٨ )
٣ - [ کنایتہ ]  گناہگاری، عِصیاں۔
 جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف کسونے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٦ )
٤ - کسی چیز کے غیرواضح اور مبہم نقوش جو اُفق پر دور سے دکھائی دیتے ہیں، مبہم نقوش و آثار، سواد۔
"ابھی میدان جنگ کی سیاہی نمودار نہ ہوئی کہ فتح کے نور اُڑتے نظر آنے لگے۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٢٤ )
٥ - [ مجازا ]  نحوست، پریشانی، مصیبت، ادبار، بدبختی
 دورِ شاہی کی سیاہی پر پڑھوں یہ مصرع شب کے دامن سے وہ کرنوں کی ضیا جا لیتی      ( ١٩٥٤ء، دونیم، ٥٣ )
٦ - کاجل۔ (نور اللغات، مذہب اللغات)۔
٧ - داغ، دھبا، سیاہی؛ (کنایتہً) عیب، نقص۔
 سلب عیب ایک اشکِ ندامت سے مٹ گئے ساری سیاہی دھو گئی روئے سیاہ کی      ( ١٨٨٨ء، صنم خانہ عشق، ٢٦٦ )
٨ - وہ مرکب جس سے لکھا جائے، روشنائی۔
"اس کے علاوہ چھاپے کی سیاہی، وارنش اور پنٹس میں استعمال ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، نامیاتی کیمیا، ظہیر احمد، ١٢٤ )
٩ - [ تصوف ]  اصلاحاً مرتبہ احمدیت، گنج مخفی، تجلی ہو (مصباح التصرف)
  • Blackness;  Ink