اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - کسی چیز پر اصلی رنگ سے مختلاف رنگ کا نشان، دھبا۔
"اسکرٹ پر چکنائی کے داغ تھے۔"
( ١٩٨٣ء، سفرِمینا، ٥١ )
٢ - گھاؤ یا زخم جو پوری طرح اچھا نہ ہوا ہو، زخم اچھا ہونے کے بعد کا نشان۔
شگفتہ رہ مرے سینہ میں تا ابد اے داغ بہار اپنی دکھا گلشنِ ارم کی طرح
( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام )
٣ - صدمہ، رنج و غم؛ کسی عزیز کے مرنے کا غم، صدمہ۔
"میرا دوست بہت رویا تھا۔ میرے دل پر بھائی کے غم کا داغ نہیں تھا۔"
( ١٩٨٣ء، بے نام، ٨٤ )
٤ - حسد، جلن۔
وہ رخسارے کہ جس سے ماہ کو داغ ہزاروں گل لٹائے بلبلِ باغ
( ١٨٦٢ء، طلسمِ شایاں، ١٥ )
٥ - عیب، برائی، بدنامی یا رسوائی، الزام، دھبّا (بسلسلہ رسوائی و بدنامی)۔
"بدنامی کا جو داغ ایک بار ہمارے ماتھوں پر لگ گیا ہے اسے نہیں دھو سکتے۔"
( ١٩٧٥ء، خاک نشیں، ٤٣ )
٦ - نشان جو لوہا وغیرہ گرم کر کے شاہی اصطبل کے گھوڑوں، غلاموں اور فوجی سپاہیوں وغیرہ کے لگائے جاتے تھے؛ گھوڑوں وغیرہ کے داغنے کا عمل۔
"اکبر (مغل بادشاہض نے. ہر سپاہی کا حلیہ فوج کے کاغذات میں درج کرایا گھوڑوں پر سرکاری داغ ڈلوائے۔"
( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، ٤٧:٣ )
٧ - وہ دفتر جہاں گھوڑوں وغیرہ کو داغا جائے۔
"سرخ رنگ کے ڈیرے کچہری بخشگیری اور دیوانی، داغ و تصحیح و خزانہ کے لیے تیار کر کے اپنے خیمے کے پاس کھڑے کیے جائیں۔"
( ١٩٠٦ء، حیاتِ ماہ لقا، ١٢ )
٨ - کھچڑی، پلاؤ یا کھیر وغیرہ کے پکانے میں ہانڈی کے پیندے میں کھرچن لگنے کا ہلکا سا مزا یابّو۔
"جو سوندھ پن اور داغ کا مزا ان کی کھیر میں آتا ہے کسی اور کے ہاں نہیں آتا۔"
( ١٩٦٢ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٢٨ )
٩ - بگھار، پیاز ڈال کر کڑکڑایا ہوا گھی۔
"ایک کٹورے میں داغ ہوتا یعنی پیاز ڈال کر کڑکڑایا ہوا خالص گھی ایک رکابی میں ہر مرچیں، ہرا دھنیا، ادرک. ہوتا۔"
( ١٩٦٢ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٥١ )
١٠ - چیچک کے نشان۔
داغ چیچک نہ اس اضراط سے تھے مکھڑے پر کِن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
( ١٨١٠ء میر، کلیات، ٤١٤ )
١١ - وہ نشان جو پھل پر پڑ جائے۔
"خوبانیاں درمیانہ سائز کی ہونا چاہئیں اور ان پر گلے سڑے داغ. نہیں ہونے چاہئیں۔"
( ١٩٧٠ء، گھریلو انسائیکلوپیڈیا، ٤٤٣ )
١٢ - مہاسے کا نشان۔
"پہلے میں خوبصورت تھا مگر اب دانوں اور داغوں سے بھرا چہرہ. سرخ ہو جاتا ہے۔"
( ١٩٨٦ء، جنگ، کراچی، ٢٢اگست، ٤ )
١٣ - دل کا زخم، جدائی کا صدمہ۔
دل کے پُورب سے ابھرتا ہے جھلکتا ہوا داغ چاندنی شامِ غریباں میں سمود دیتا ہے
( ١٩٨٠ء، شہرِ سدا رنگ، ٢٨ )