فہم

( فَہْم )
{ فَہْم (فتحہ ف مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


فہم  فَہْم

عربی زبان سے ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : اَفْہمام [اَف + ہام]
١ - عقل ، خرد، سمجھ، سمجھ بوجھ۔
"اس میں اُنکی فہم کا قصور تھا یا انکی سیاست گری کے تقاضوں کا اس کا جواب ہمارے پاس نہیں۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٤٨٥ )
٢ - علم، سمجھ، ادراک حاصل کرنا۔
 وہ نام جس پہ فرشتے بھی بھیجتے ہیں درود ہمار فہم کی حد سے بلند جس کا مقام      ( ١٩٨٤ء، زادِ سفر، ٢٥ )