اصول

( اُصُول )
{ اُصُول }
( عربی )

تفصیلات


اصل  اَصْل  اُصُول

عربی زبان کے لفظ 'اصل' سے جمع ہے۔ اردو میں بطور جمع اور واحد بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء "قطب مشتری" میں بطور واحد مستعمل ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - جمع )
واحد   : اَصْل [اَصْل]
١ - درختوں وغیرہ کی جڑیں۔
"چھوٹی شاخوں میں سے اور چھوٹی شاخیں پھوٹتی ہیں - تمام اصول باہم مصلق اور گندھے ہوئے ہوتے ہیں۔"      ( ١٩١٠ء، مبادی سائنس، ٢٤ )
٢ - بنیادی باتیں جن سے ضمنی مسائل یا فروعات پیدا ہوں، خصوصاً کسی علم یا فن کے کلیات و مسلمات۔
"شخص عقیل کو فرض ہے کہ تحقیق علمی - کے واسطے ان سب علوم کے اصول اور فروغ کو مطالعہ کریں۔"      ( ١٨٧٧ء، رسالہ، تاثیر الانظار، ٢٧ )
٣ - طور، طریقے، قرینے، ڈھنگ؛ رسم و رواج۔
 براق کے نظر آنے لگے فرس میں اصول نقاب منہ سے پٹی کھل گیا نقاب کا پھول      ( ١٩٧١ء، رشید (پیارے صاحب)، گلزار رشید، ٧٧ )
٤ - [ دینیات ] دین کے بنیادی عقائد (جو مذاہب عالم کی کتب دینیہ میں مذکور ہیں)۔
"ہر ایک دین کے علما اور بزرگان مذہب سے ملوں اور ان عقائد کے اصول و فروغ کو پوچھوں۔"
٥ - مسائل دینی میں فقیہ یا امام کے فتوے، احکام شرع۔
"ایسی دیگر اشیاء کو جو بردے اصول اہل اسلام ناجائز ہیں مسجد کے اندر لے جانے کی ممانعت ہے۔"    ( ١٩٠٥ء، یادگار دہلی، ٣٢ )
٦ - تقسیم میراث میں وہ وارث جس کا حصہ متعین ہے، آبا و اجداد، ذوی الفروض۔
"تمھارے وارث خواہ تمھارے اصول ہوں یا فروع، ان میں سے دنیا میں اور آخرت میں کون تم کو زیادہ کام آنے والا ہے۔"    ( ١٨٦٠ء، فیض الکریم تفسیر قرآن العظیم، ٤٥٢ )
٧ - مسائل شرعی (روزہ نماز وغیرہ) میں امام یا مجتہد کے فتوے پر عمل کرنے کا مسلک، اجتہاد، اخباریوں کے مسلک کی ضد۔
 ایماں کے سلسلے کو نہ زنہار توڑیے سنگ اصول سے سراخبار توڑیے    ( ١٨٢٣ء، ہوس، دیوان (ق)، ٩٩ )
٨ - [ عروض ]  سالم ارکان جن کی مختلف ترکیبوں سے شعر کے وزن کے لیے بحریں بنائی گئ ہیں، افاعیل۔ (اور وہ حسب ذیل ہیں : فاعِلاتُن، مُسْتَفْعِلُن، مَفاعِیلُن، مَُفاعَلَتُن، مُتَفاعِلُن، مَفْعُوْلات، فاعِلُن، فَعُولُن)۔
 سالم اصول اور نہ افاعیل رہ گئے مفعول فاعلات مفاعیل رہ گئے      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ(ق)، ٣ )
٩ - [ طب ]  عناصر : آگ، ہوا، پانی، خاک۔
"انھیں عناصر کو اصول اور عناصر اور استقسات کہتے ہیں - اور وہ چار ہیں : پہلی آگ - دوسری ہوا - تیسری پانی - چوتھی خاک۔"      ( ١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٢٩٠ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : اُصُوْلوں [اُصُو + لوں (و مجہول)]
١ - دستور، روایت، طریقہ، چلن۔
"تم نے اس پہلے اصول کو کہ تم سب ایک عاقل ماں کے بچے ہو توڑ دیا۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٢٨ )
٢ - قاعدہ، ضابطہ۔
"اصول تارید کے تحت - دیکھیے صندوق کی - جمع بنائی۔"      ( ١٩٣٤ء،منشورات، کیفی، ٧٠ )
٣ - [ اسلامیات ]  علم اصول فقہ۔
"ادب و بلاغت پر موقوف نہیں، فقہ، اصول، علم کلام سب کا ماخذ قرآن مجید ہے۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ٢٦:١ )
٤ - [ موسیقی ]  راگ کے بندھے ہوئے سر یا تال، موسیقی کی ایک پوری گت، دھن؛ ساز، باجا، خصوصاً طبلہ۔
 دل کو خوش آیا جو بلبل کے ترانوں کا اصول وجد میں جھومے شجر کھلنے لگے لاکھوں پھول      ( ١٩١٧ء، رشید (پیارے صاحب)، گلزار رشید، ١٣ )
٥ - عنصری خصوصیت، عنصریت۔
"آتش کی قوت صرف اس کے اصول میں ہوتی ہے۔"      ( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات اردو، ١٣٧ )
٦ - [ ریاضی ]  جمع، تفریق، ضرب تقسیم اور جذر وغیرہ؛ ریاضی کے قاعدے۔
"اصول ارثما طیقی میں اس کی ایک کتاب یونان میں مشہور تھی۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ٣ : ٥٨ )