باریک

( بارِیک )
{ با + رِیک }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو سے فارسی میں ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے اردو میں ١٦١١ء میں "قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - چوڑائی موٹائی میں کم، پتلا، مہین۔
"لفظ باریک پر آپ کا ارشاد تھا کہ صحیح نہیں باریک بمعنی کم در عرض و عمق بھی آیا ہے۔"      ( ١٩١٨ء، مکاتیب اقبال، ٩٢:١ )
٢ - پتلے سوت کا، مہین سوت کا۔
"دوپٹہ کریب یا آب رواں کا باریک، چھاتی سے ڈھلکا۔"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ١٥ )
٣ - سفوف کی طرح پسا ہوا، میدے کی طرح کا، بہت ہی چھوٹے چھوٹے ذروں پر مشتمل۔
"ہل چلا کر کھیت باریک تیار کریں اور - مطلوبہ بیج مناسب گہرائی میں بو دیں۔"      ( ١٩٧٣ء، رسالہ 'زراعت نامہ' یکم مارچ، ٣ )
٤ - نہایت نازک، لطیف، نفیس۔
"رات بھیگتی تھی اور ہوا باریک اور ٹھنڈی چلتی تھی۔"    ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٦٣٤:١ )
٥ - دقیق، مشکل، پیچیدہ (جس میں غور و خوض اور احتیاط درکار ہو)۔
"باریک سے باریک اور مشکل سے مشکل مسئلے حل کر کے ذہن میں اتار دیتے تھے۔"    ( ١٩٢٢ء، مرگ نامہ، ٣٦ )
٦ - نہایت حفیف، جو بغیر غور و تعمق کے محسوس نہ ہو۔
 ادا و ناز و تغافل میں فرق ہے باریک کہاں سے لائیں وہ آنکھیں جو امتیاز کریں      ( ١٩٢٧ء، شاد، بادۂ عرفاں، ١٢٧ )
١ - باریکی چھیننا
لطافت اور نزاکت پیدا ہونا، نئی سے نئی وضع اور انداز ایجاد ہونا۔"زر دوزی ایسی بنی ایسی باریکی چھنی کہ باہر بندو اس کے پنے جو پائیں بجاے جیغہ و سر پیچ سر پر لگائیں"      ( ١٨٢٤ء، فسانۂ عجائب، ١٠ )
٢ - باریکی نکالنا
نکتہ چینی کرنا، لطیف مضمون پیدا کرنا۔ (نوراللغات، ٥٣١:١)