بالائی

( بالائی )
{ با + لا + ای }
( فارسی )

تفصیلات


بالا  بالائی

فارسی زبان میں اسم 'بالا' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت اور بطور لاحقۂ کیفیت لگنے سے 'بالائی' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٧٤ء میں "شہید"" کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - برتری، بلندی۔
 چوم کر شاہ کے قدم خلد کی دولت پائی پوچھ لو عالم بالا سے مری بالائی      ( ١٩٤٥ء، مرثیۂ نجم (مصور حسین)، ٤ )
٢ - جوش دینے سے دودھ کے اوپر جمنے والی تہ، ملائی۔
"مصالحے میں دہی آدھ پاؤ اور بالائی ایک چھٹانک کا اضافہ کیا جائے۔"      ( ١٩٤٧ء، شاہی دسترخوان، ٢٣ )
صفت نسبتی
١ - بلندی سے منسوب : اوپر کا، بلندی کا، کوٹھے یا آسمان وغیرہ کا۔
"دلیر دھونکل : خیر ہے یہ بلا بالائی کہاں سے آئی۔"      ( ١٩٠١ء، عشق و عاشقی کا گنجینہ، ١٣ )
٢ - سطح کے اوپر کا۔
"مٹی سے مراد کرۂ امرض کا بالائی چھلکا ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ٢١ )
٣ - سطحی، اوپری، جس میں گہرائی نہ ہو، معمولی۔
"ان کی تعلیمات محض بالائی ثابت ہوتی ہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، اساس اخلاق، ٢٠٠ )
٤ - غیر معمولی، جو معمول کے علاوہ ہو، مقررہ اور معتاد سے مزید اضافی، اوپر کا۔
"بالائی اخراجات اور انتظامی مدات کے صرفے میں کفایت ہوتی ہے۔"      ( ١٩٧١ء، دوسرا پنج سالہ منصوبہ، ٢٨٤ )
٥ - (محفوظ کے علاوہ) اوپر رکھا ہوا۔
"وہ چور جو کہنہ مشق تھے جو کچھ بالائی پایا لے کر بھاگ گئے۔"      ( ١٨٥٠ء، فوائدالنساء، ٥٦ )
٦ - شمالی۔
"بالائی ہندوستان کی افواج متعینہ کے پاس ان لوگوں کے پیغام بھیجے تھے۔"      ( ١٩٠١ء، سیتا (ترجمہ)، ٣/٢ : ٦ )