اتنا

( اِتْنا )
{ اِت + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اتا  اِتْنا

صفت مقداری ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اِتْنی [اِت + نی]
جمع   : اِتْنے [اِت + نے]
جمع غیر ندائی   : اِتْنوں [اِت + نوں (و مجہول)]
١ - اس قدر (خاص، معین یا غیر معین تعداد یا مقدار وغیرہ کے لیے مستعمل)
 جرم نظارہ پر نہ نہیں صائقہ گرے اتنا چمک کے مجھ پہ تو چمکا نہ آئنہ
٢ - اس درجہ اس حد تک (کثرت، بہتات یا عظمت کے لیے)
 میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے     "اتنا لکھا پر معلوم ہوتا ہے کچھ نہیں لکھا"      ( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ٢٤٣ )( ١٩٥٠ء، چھان بین، ٨١ )
٣ - اس قدر کم یا چھوٹا، کم سے کم اس قدر (کمی، قلت یا صفر کے لیے)
 وہ زیادہ یہ کم الٰہی خیر غم تو اتنا ہے دل مرا اتنا      ( ١٩٠٥ء، یادگارِ داغ، ١٤٦ )
٤ - ایسا، اس قابل۔
کس کو رکھوں نظر میں میں اپنی کوئی اتنا نظر نہیں آتا      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٣٣ )
٥ - (بطور اشارہ قریب جبکہ مشارُ الیہ مذکور ہو) یہ، اس
"کمی ہے تو بس اتنی کہ یہاں کے عوام بے علم اور کمزور ہیں"      ( اودھ پنچ، لکھنو، ١٣/١٠: ٤ )
٦ - بقدر، برابر (اکثر کا وغیرہ کے ساتھ مستعمل)
"واقعی تم . کامیاب اور خوش رہو گے اور قاضی صاحب مرحوم کے اتنا جیو گے"      ( ١٩٥١ء، گویا دبستان کھل گیا، ٥٤ )
  • as much as this
  • this much;  so much
  • so many