برج

( بُرْج )
{ بُرْج }
( عربی )

تفصیلات


برج  بُرْج

اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء میں 'قطب مشتری' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بُرْجوں [بُر + جوں (واؤ مجہول)]
١ - گنبد، قبہ، لداو کی چھت کا وہ حصہ جو آدھے چاند کے اوپری حصے کی شکل کا اور اس کے اوپر اکثر ایک کنگرہ ہوتا ہے، شلجمی وضع کی بنی ہوئی چھت، پوری عمارت جو گنبد کے نیچے ہو۔
'بادشاہ سلامت بھی نکل سمن برج میں آ بیٹھے۔"      ( ١٩٣٠ء، مضامین فرحت، ١١:٢ )
٢ - مینار۔
'ایک فصیل کھینچی ہوئی ہے اور اس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے برج بنے ہوئے ہیں۔"      ( ١٩٠٣ء، چراغ دہلی، ٤٠ )
٣ - قلعے کا وہ حصہ جس پر توپیں چڑھاتے ہیں اور جو بشکل دائرہ آگے کو نکلا ہوا اور بغیر پٹاو کا ہوتا ہے۔
'ایک برج کی تہہ تک سرنگ لگائی گئی اور بارود سے بھری گئی۔"      ( ١٨٩٦ء، تاریخ ہندوستان، ١٥٠:٥ )
٤ - مٹھ جس میں عموماً فقیر وغیرہ رہتے ہیں، کٹی، خانقاہ۔
'تم اسی جنگل میں ایک برج بنا کر بیٹھو۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ١٤٠:٣ )
٥ - غبارہ، بیلون۔ (فرہنگ آصفیہ، 383:1)
٦ - [ ہئیت و نجوم ]  سیارے کا دائرہ گردش جسے اس کا گھر مقام یا منزل کہتے ہیں، آسمانی دائرے کے بارہ حصوں میں سے ہر ایک، راس (قدیم ہئیت دانوں نے ستاروں کے مقامات سمجھنے کے لیے منطقہ یار اس منڈل (فضا) کے بارہ حصے کیے ہیں، ہر حصے میں جو ستارے واقع ہیں ان کی اجتماعی صورت سے جو شکل بنتی ہے اس حصے کا نام اسی شکل پر رکھ دیا ہے، مثلاً چند ستارے مل کر شیر کی سی شکل بناتے ہیں، اس حصے کا نام برج اسد رکھ لیا گیا)۔
 ہیں ان پر برج بارہ اور جدا ہر برج صورت میں منازل ہیں پئے سیارگاں وہ علم ہئیت میں      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، مثنوی حسن، ٤٧ )
  • tower
  • turret;  bastion;  sign of the zodiac