تلخ

( تَلْخ )
{ تَلْخ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم صفت ہے۔ اردو میں فارسی سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - کڑوا، بدذائقہ، بدمزہ۔
"گلاب کا پھول سرخ اور چنبیلی سفید کیوں ہوتی ہے، کھجور شیریں اور اندراین تلخ کیوں ہوتا ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ١٧:٣ )
٢ - [ مجازا ]  ناگوار، ناپسند (زندگی، تجربہ، جواب وغیرہ)
"زندگی تلخ و دشوار تھی مگر قوت لایموت کی فکر بھی ناچار تھی۔"      ( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٤٥ )
٣ - بے لطف، بے مزہ، بے کیف، ناگوار (عیش، خواب وغیرہ)
"تمام عیش آپس کی ناسازگاری سے تلخ رہتا ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٧٥ )
٤ - سخت، دشوار۔
 کوئی نہیں ہے غم گسار انساں کیا تلخ ہے روزگار انساں      ( ١٩٢٢ء، بانگِ درا، ١٣٥ )
٥ - تندو تیز، بدزبان۔
"مؤلف نے دین الٰہی پر بڑی تلخ نکتہ چینی کی ہے۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٦٩٣:٣ )
٦ - [ تصوف ]  وہ امر جو موافق طبیعت سالک کے نہ ہو۔ (مصباح التعرف، 79)
٧ - ناراض، خفا۔
 مے پرستوں سے نہو تلخ نوائے دخترزر جب ترے خصم ہی ٹھہرے تو خصومت کیا ہے      ( ١٨٨٩ء، دیوان عنایت و سفلی، ٧٩ )
٨ - بدمزہ (ذائقے کے اعتبار سے)۔ (ماخوذ : نوراللغات)
  • bitter
  • acrid;  rancid;  pungent;  unpalatable;  acrimonious
  • malicious;  sad
  • sorrowful