کڑوا

( کَڑْوا )
{ کَڑ + وا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٥ء کو "جواہر اسرار اللہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر )
جنسِ مخالف   : کَڑْوی [کَڑ + وی]
واحد غیر ندائی   : کَڑْوے [کَڑ + وے]
جمع   : کَڑوے [کَڑ + وے]
١ - تلخ، بدمزا، کسیلا (میٹھا کی ضد)۔
"یوپی میں "کڑوا" "تلخ" کا مترادف ہے مثلاً یہ کھیرا کڑوا نکل گیا۔"      ( ١٩٦١ء، اردو زبان اور اسالیب، ١٨٤:١ )
٢ - تیز، تند، حقے کا تمباکو جو تیز ہوتا ہے (ہلکے میٹھے تمباکو کے مقابل)۔
"تمباکو والے کالے دھن کی خیر منانے والے خیمرہ سادہ، کڑوا بیچتے تھے۔"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوش ربا، ١٨٤:١ )
٣ - بے حد نمکین، تلخ۔
"ساری عمر سوائے کڑوے اور کھاری پانی کے نہ دیکھا اور چکھا تھا۔"      ( ١٨٠٣ء، گنج خوبی، ٢٦ )
٤ - [ استعارۃ ]  بدمزاج، تندخو، ترش رو۔
"استعارے میں آکر کڑوے کے معنی درشت و تند خو ہو جاتے ہیں، جیسے کڑوا مزاج۔"      ( ١٩٦١ء، اردو زبان اور اسالیب، ٢٤٦:١ )
٥ - [ استعارۃ ]  خفا، ناخوش۔
 مجھ سے کب آپ نے کی میھٹی بات کب مجھے آپ نے کڑوا نہ کیا      ( ١٨٦٦ء، دیوان فیض حیدر آبادی، ٦٧ )
٦ - [ استعارۃ ]  بہادر۔ (دریائے لطافت، 92)
٧ - [ استعارۃ ]  بے رحم، سنگدل۔
 ہر چند کہ تھا وہ دیو کڑوا حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا      ( ١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ٧ )
٨ - [ استعارۃ ]  ناقابل برداشت، ناگوار۔
 تلخی مئے کا مزا اس میں بھی ساقی آگیا ہو گیا قند مکّرر یہ تیر کڑوا جواب      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٤٣ )
٩ - غنی، مال دار، صاحب دولت (قدیم)۔
 توں ہے گنھیر کڑوا تیرا ہے جس کوں پروا پروا نہیں اسے کچ ہن سو ہزار بک کا      ( ١٦٧٨ء، کلیات غواصی، ١٠٩ )
١٠ - [ استعارۃ ]  زحمت طلب، جو آسان اور سہل نہ ہو۔
 بوسہ ماتک لب شیریں کا وہ بہت تلخ ہوا بیچ ہے کڑوا ہے بہت راہ خدا کا سودا      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٢١٠:٣ )