ثمر

( ثَمَر )
{ ثَمَر }
( عربی )

تفصیلات


ثمر  ثَمَر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب کا مصدر ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں اصل معنی ہی میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : اَثْمار [اَث + مار]
جمع استثنائی   : ثَمَرات [ثَمَرات]
١ - پھل، میوہ۔
 غرض یہ تھی نہ ہو اہل ہوس کو میل غم حسرت نہال عشق کو ظاہر میں حق نے بے ثمر رکھا      ( ١٩١٦ء، کلیات حسرت، ٥١ )
٢ - [ مجازا ]  کیے ہوئے کی جزا یا سزا، (برے یا بھلے کام کا) نتیجہ۔
 اگر نیکی کرے گا تو خدا اس کا ثمر دے گا تیرا دامن وہی امید کے پھولوں سے بھر دے گا      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٧١ )
٣ - [ مجازا ]  بیٹا۔
 سوکھا تجھ باپ کا نہال امید اے ثمر باپ کے کہاں گیا تو      ( ١٨٣٢ء، کربل کتھا، ١٨١ )
٤ - [ مجازا ]  نتیجہ، انجام، فائدہ، حاصل۔
"یقیناً وہ اپنی فنی قابلیت کے ثمرات عوام الناس کے سامنے پیش کرتے رہیں گے۔"      ( ١٩٤٣ء، مقالات گارسان دتاسی، ٣:٢ )
١ - ثمر آنا
(لفظاً) پھل آنا، (مجازًا) مقصد پورا ہونا، کام نکلنا۔ تم میں رخ مقصود نظر آتا ہے جلتی ہوئی شاخ میں ثمر آتا ہے      ( ١٩٤٧ء، رباعیات امجد، ٢٩:٢ )
  • fruit;  produce;  advantage
  • profit;  result
  • product;  recompense
  • reward;  offspring