خدائی

( خُدائی )
{ خُدا + ای }
( فارسی )

تفصیلات


خُدا  خُدائی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'خدا' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقۂ اسمیت و صفت لگانے سے 'خدائی' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور شاذ بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جس کو خدا نے پیدا کیا ہو، قدرتی۔
"قدرتی سبزہ زار اور خدائی مرغزاروں کو چھوڑ کر محلوں میں جا بیٹھا تھا"      ( ١٨٨٠ء، نیرنگ خیال، ٣٠:١ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : خُدائِیاں [خُدا + اِیاں]
جمع غیر ندائی   : خُدائِیوں [خُدا + اِیوں (و مجہول)]
١ - خدا سے منسوب یا متعلق۔
"زیوس کا یہ اندیشہ بے جانہ تھا کہ . انسان کہیں اس کی خدائی ہی سے منکر نہ ہو جائے"      ( ١٩٨٢ء، نوید فکر، ٢٤٨ )
٢ - ربانیت، الوہیت، خدا ہونا، بندگی کی ضد۔
 خدائی اہتمام خشک و تر ہے خداوند خدائی درد سر ہے      ( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ٣٠ )
٣ - صاصبی، آقائی۔
"اس کی آقائی اور خدائی کی نوعیت کیا ہے?"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٧٥:٣ )
٤ - راج، حکمرانی۔
"پوپوں نے . اپنی اپنی جگہ پر شہنشاہانہ بلکہ خدائی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے تھے"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبی، ٢٢٨:٤ )
٥ - زمانہ، وقت۔
 کیا خدائی ہے منڈانے لگے اب خط وہ لوگ دیکھ کے ڈھوڑی میں چھپ رہتے تھے جو نائی کو      ( ١٨١٨ء، اشنا، کلیات، ١١١ )
٦ - دنیا، جہان، کائنات۔
 پھر خلد بن گئی ہے خدائی مرے لیے اک حو روش کے دل میں نشیمن ہے آج کل      ( ١٩٤٦ء، طیور آوراہ، ٥٥ )
٧ - ماسواللہ، خلق اللہ۔
 ایک خالق اور خلقت بے شمار وہ خدا اور یہ خدائی واہ واہ    ( ١٨٧٣ء، مناجات ہندی، ١٠٠ )
٨ - مخلوق، خلقت، عام لوگ، عوام الناس۔
"جب پردہ اٹھا کر سامنے آتی، تو ساری خدائی اس کے سامنے سر کے بل گِر پڑتی ہے"    ( ١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٧:١ )
٩ - خدا کی قدرت، شان، خداوندی، کرشمۂ قدرت۔
"قطب صاحب کی سیر کرنے جائے تو جانبِ شرق تغلق آباد کا محل یا قلعہ دیکھے، وہاں اسے خدا کی خدائی یاد آجائے گی"      ( ١٩٠٣ء، چراغ دہلی، ٤٨ )
١ - خدائی نظر آنا
اللہ کی شان نظر آنا۔"یہ کیا عظیم الشان مکان تھا خدائی نظر آتی تھی آج یہاں کتے لوٹ رہے ہیں۔"      ( ١٩٢٣ء، مضامین شرر، ٥٦:١ )
  • Divine