شوخ

( شوخ )
{ شوخ (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور صفت نیز بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع غیر ندائی   : شوخوں [شو (واؤ مجہول) + خوں (واؤ مجہول)]
١ - چنچل، شریر، طرار۔
"کل اک بچوں کی مجلس میں کہا اک شوخ بچے نے ہماری تاک میں دشمن بڑے ہشیار بیٹھے ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، قطعہ کلامی، ٨٦ )
٢ - گستاخ، بے باک؛ قتنہ انگیز۔
 شوخ نظروں سے دیکھنے والے چوٹ دل پر مرے لگی تو نہیں      ( ١٩٨٣ء، حصارِانا، ١٣٩ )
٣ - چمکیلا، تیز، گہرا (رنگ)۔
"چاندنی کی شوخ چاندی پورے صحن میں پھیلی ہوئی تھی۔"      ( ١٩٨٦ء، قطب نما، ٥١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ مجازا ]  معشوق، محبوب۔
 دل ایسے شوخ کو مومن نے دیدیا کہ وہ ہے محب حسینؓ کا اور دل رکھّے شِمر کا سا      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٨ )
٢ - دلکش، حسین۔
 عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی سی یہ تصویر ہے خامۂ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے      ( ١٩٢٤ء، بانگِ درا، ١٥٢ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - [ تصوف ]  محبوبِ حقیقی۔
"شوخ معشوق کو کہتے ہیں اور . شوخی کثرتِ التفات کو کہتے ہیں کو جو معشوق کی جانب سے ہو۔"      ( ١٩٢١ء، مصباح التعرف، ١٥٥ )