دقت

( دِقَّت )
{ دِق + قَت }
( عربی )

تفصیلات


دقق  دِقَّت

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٩٧ء کو ہاشمی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : دِقَّتیں [دِق + قَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دِقَّتوں [دِق + قَتوں (و مجہول)]
١ - دشواری، پیچیدگی، اشکال۔
"وصیت کے قاعدے میں بڑی دقت یہ تھی کہ ناگہانی موت کے موقع پر تقسیم جائیداد کا کوئی اصول جاری کرنا ممکن نہ تھا۔"    ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ١٢٨:٢ )
٢ - مصیبت، الجھن، پریشانی، تنگی۔
"دقت یہ تھی کہ وہ لڑکی گونگی تھی۔"    ( ١٩٨٦ء، اوکھے لوگ، ١٦٠ )
٣ - غور و خوص سے اسرار و رموز تک پہنچنے کی کیفیت، باریکی (جو سطحی اور معمولی نظر سے دکھائی نہ دے)، باریک بینی، نکتہ، موشگافی۔
"نہیں طعن کیا کسی نے پیچ کسی قول کے . مگر جاہلوں نے کہ جاہل رہے اوس کی دلیل سے یا دقت اور باریکی اس کی سے۔      ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ، ١٠:١ )
  • A minute or subtle thing
  • knotty or nice point;  delicate matter;  difficulty;  abstruseness
  • intricacy;  trouble
  • perplexity
  • difficulty
  • distress;  diligence
  • close application
  • industry;  accuracy