عذاب

( عَذاب )
{ عَذاب }
( عربی )

تفصیلات


عذب  عَذاب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - تکلیف دینے والا، ایذا دینے والا۔
 جنوں ہے جب سے مجھے شور ہے حسینوں میں ہمیں جلیل سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں      ( ١٩١٠ء، تاج سخن، ١١٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : عَذابوں [عَذا + بوں (و مجہول)]
١ - (اللہ تعالٰی کی جانب سے) گناہ کی سزا، بد اعمالی کی یاداش (ثواب کا نقیض)۔
"آگ میں جلانا عذاب تھا جو اس مردے پر مسلط تھا۔"      ( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ١٥١ )
٢ - دکھ، اذیت، تکلیف، رنج و غم۔
"آج کل آدمی اس نئی روشنی کی بدولت طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہے۔"      ( ١٩٠٥ء، سی پارۂ دل، ٤٧ )
٣ - مصیبت، بلا، وبال، جنجال۔
"سیاسی حکومت . ایک بڑا عذاب تھی۔"      ( ١٩٨١ء، افکار و اذکار، ٨٣ )
٤ - گناہ، پاپ، برائی۔
 دل لے کے مجھے سے کہا تو ہی تو دے گیا تھا یعنی مرے ہی سر پر الٹے عذاب رکھنا      ( ١٧٨٦ء، میر حسن، دیوان، ٢٢ )
١ - عذاب آنا
خدا کا قہر نازل ہونا، گناہوں کی سزا ملنا۔ تلاش سائے کی لائی جو دشتِ سے تو کُھلا عذاب صورت دیوار و در بھی آتا ہے      ( ١٩٧٥ء، دریا آخر دریا ہے،٣٨ )
٢ - عذاب بن جانا
مصیبت بن جانا، دشواری کا باعث ہونا، باعثِ آزار ہونا۔"بس اتنی سی بات میرے لیے عذاب بن گئی۔"      ( ١٩٨٨ء، افکار، کراچی، مارچ، ٥٧ )
٣ - عذاب کا نازل ہونا
مصیبت یا تکلیف آنا، خدا کا قہر نازل ہونا۔(ماخوذ: نوراللغات، جامع اللغات)