ادب

( اَدَب )
{ اَدَب }
( عربی )

تفصیلات


ادب  اَدَب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشنِ عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - اخلاق یا معاشرتی اصول کی پابندی، شایستگی، تہذیب، تمیز، عادات و مذاق کا اعلٰی معیار۔
 شایستگی بھی ان میں ہے غیظ و غضب کے ساتھ غصے میں بھرے ہوے لیکن ادب کے ساتھ    ( ١٩٧٤ء، ٧٤ء کے جدید مراثی )
٢ - کسی کی عظمت و بزرگی کا پاس و لحاظ، حفظ مراتب، احترام، تعظیم۔
 ڈر نہ ہو ترک ادب کا تو یہ واعظ سے کہوں حاملِ ریش کو لازم ہے مسلماں ہونا    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ١٩ )
٣ - پسندیدہ طریقہ، ضابطہ یا سلیقہ۔
"اس حدیث میں کھانے کے متعلق تین ادب سکھائے گئے ہیں۔"    ( ١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض )
٤ - تہذیب جو ایک گروہ یا قوم کو دوسرے گروہ یا قوم سے ممتاز کرے۔
 کہتے ہیں وہ ادب کی بناؤں کو توڑ دو یہ تو نہ ہو سکے گا شریفوں کے ہاتھ سے    ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات ٦٣:٤ )
٥ - قاعدہ، قرینہ، طریقہ۔
"میز اور چھری کانٹے کا پورا پورا ادب سنا ہے محتاج تعلیم رشق ہے۔"    ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٩٥:٣ )
٦ - نظم و نثر اور ان کے متعلقات (معانی، بیان، بدیع، عروض، قافیہ وغیرہ)، لٹریچر؛ زبان۔
"جب تک ادب میں یہ زاویہ نگاہ نہ ہو اس کی . قدر و قیمت کا تعین دشوار ہے۔"      ( ١٩٥٠ء، چھان بین، اثر، ٣٦ )
٧ - دھتکارنے کی آواز (خصوصاً کتے کو)، دور ہو، پرے ہٹ۔
"ادب کتے ادب"      ( ١٨٩٣ء، فرہنگ آصفیہ، ١٣٠:٣ )
٨ - حیا، شرم، جیسے : باپ کے سامنے بی بی سے ہنستا بولتا ہے ذرا ادب نہیں۔
٩ - عجز و نیاز، فروتنی، خاکساری۔
"فقیر نے مارے خوشامد کے ادب سے سلام کیا۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٢٦ )
١٠ - [ تصوف ]  نگہداشت، عبودیت۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 29)
١ - ادب دینا
تہذیب و شایستگی سکھانا۔'حضرت نے ادب دینے کی نگاہ سے، نہ سزا دینے کی راہ سے اس کی طرف دیکھا۔"      ( ١٨٠٣ء، گنج خوبی، ٦٧ )
سزا دینا، گوشمالی کرنا۔'اگر یہ شروع سے مجھ کو ادب دیتی تو میں کیوں چوری کی عادت ڈالتا۔"      ( ١٨٦٨ء، منتخب الحکایات، ٢٦ )
  • discipline
  • training;  deportment;  good-breeding;  good-manners
  • politeness
  • courtesy
  • urbanity;  etiquette;  polite literature