سخن

( سُخَن )
{ سُخَن }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - نطق، کلام، گفتار۔
 دھوکا فقط ہے نفس کا اس آب و گل کی دھن اس سلسلے میں کچھ نہیں گنجائش سخن      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، مراثی، ٤:١ )
٢ - شعر، کلام موزوں۔
 حسین کون ہے یا رب سخن کہ جان سخن شکنتلا کی جوانی کہ کالی داس کا فن      ( ١٩٧٧ء، سرکشیدہ، ٢٣٩ )
٣ - قول، مقولہ۔
 اماں کا سخن یہ ہے کہ بیٹی میں ہوں مجبور ہمرائی بیمار کسی کو نہیں منظور      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٠:١ )
٤ - معاملہ، بات۔
 چھپا گیا تھا محبت کا راز میں تو مگر وہ بھولپن میں سخن دل کا عام کر بیٹھا      ( ١٩٨٦ء، کلیات منیرنیازی، ٥٥ )
٥ - اعتراض، شک۔
 چشم گریاں کو مری دیکھ کے سب مان گئے اب کسی کو بھی سخن نوح کے طوفاں میں نہیں      ( ١٨٨٢ء، صابر دہلوی، ریاض صابر، ١٥٠ )
٦ - [ تصوف ]  اس سے اشارہ ہے عالم غیب کی طرف اور کلام الٰہی کو بھی کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں بالعبادت اور بالاشارت۔ (ماخوذ : مصباح التعرف، 141)
  • speech
  • language
  • discourse
  • word
  • words;  thing
  • business
  • affair