اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - تاگا، ڈورا، سوت، دھاگا۔
سو جگہ جس میں رفو ہوں وہ ہے اچھا دامن ہوں نہ دو تار بھی جس میں وہ گریباں اچھا
٢ - لوہے، پیتل، تانبے،جست وغیرہ معدنی اشیا کا لمبا پتلا اور گول ڈورا جو باجوں کے پردے یا ساز بنانے میں کام آتا ہے۔
"تمور اور سارنگی اوور چنگ اور تمام باجے اور تار کی چیزیں اون کا سننا اور برتنا سب حرام ہے"۔
( ١٨٦٦ء، تہذیب الایمان، ٢٥٩ )
٣ - لوہے، جست، تانبے وغیرہ کے وہ تار جن پر برقی رو دوڑتی ہے۔
"تار کا سلسلہ ہندوستان کے اندر سے ہندوستان لے جانا مقصود ہے"
( ١٩٢٨ء، اردو : دائرہ معارف اسلامیہ، ٦٥٣:٢ )
٤ - لوہے کا وہ تار جس سے صابن کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو کاٹا جاتا ہے۔ ایسے تاروں کے سروں پر دو گھنڈیاں سی لگی ہوتی ہیں۔
چار آئینہ میں تیر کے باہر نکل آئے صابوں سے دو تار برابر نکل آئے
٥ - مکڑی کا جالا
"جیسے اپنے جال کے ایک ہی تار پر مکڑی دوڑا کرتی ہے"
( ١٩٢٣ء، نگار، فروری، ١٤٢ )
٦ - مکڑی کے جالے کے تار کی طرح کمزور(اکثر عنکبوت کے ساتھ)
اک فلسفہ ہے تیغ کا اور اک سکوت کا باقی جو ہے وہ تار ہے بس عنکبوت کا
( ١٩٢١ء، کلیات، اکبر، ٣٤٧:١ )
٧ - تعلق، رشتہ، واسطہ
دل میں غم رکھتے ہیں پر آنسوؤں کے تار نہیں اپنے قانون محبت میں کوئی تار نہیں
( ١٩٢٥ء، ریاض امجد، ١٣٤ )
٨ - سلسلہ، تانتا، تسلسل
"سات ہزار برس سے یہی تار چلا آتا ہے یعنی بے شمار آدمی اب تک دنیا میں مر چکے ہیں"۔
( ١٨٢٨ء، مراۃ العروس، ٢٨٧ )
٩ - قبضہ، قدرت، سلسلہ حیات، نفس، دم، سانس، ذریعہ حرکت
سانس کے دم سے زمانے کی اچھل کود ہے سب پتلیوں کے یہ تماشے ہیں اسی تار کے ساتھ
١٠ - شکر کے قوام کے کھنچاؤ کی وہ کیفیت جو اسی کو پکا کر پیدا کی جاتی ہے، تار قوام۔
"میٹھے ٹکڑوں کے لیے صرف ایک تار کا قوام کافی سمجھا جاتا ہے"
( ١٩٠٦ء، نعمت خانہ، ١٢٥ )
١١ - کسی مائع یا قدرتی عرق کی وہ چمک جو تار کی طرح کھنچ جاتی ہے۔
"بڑ کے دودھ میں بڑا لیس ہوتا ہے۔ ذرا سا انگلی میں لگا کر تار تو اٹھاؤ دیکھو کہاں تک نکلتا چلا جاتا ہے۔"
( ١٨٩٦ء، اردو کی دوسری کتاب، آزاد، ٤٨ )
١٢ - خطوط اور دوسرے ضروری کاغذات پرونے کا تار(نوراللغات)
١٤ - (محکمہ وغیرہ) تار برقی، ٹیلی گراف۔
"ڈاک اور تار کے دونوں محکمے اب ملا دیے گئے ہیں"
( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٢٢ )
١٥ - برقی تار کے ذریعے آنے والی خبر، ٹیلی گرام، برقی پیغام۔
"پاس ایک تار کا لال کاغذ پڑا تھا، سمجھا کہ اس میں کچھ لکھا ہے جلدی سے اٹھا کر تار پڑھنا چاہا"۔
( ١٩٢٨ء، پس پردہ، ٧٦ )
١٦ - تاریکی، اندھیرا، ظلمت۔
"وہ زندگی کے روشن و تار کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے"۔
( ١٩٢٦ء، حافظ اور اقبال، ٣٣ )
١٨ - زیور کا کوئ چھوٹا حصہ، چھلا، انگوٹھی، زیور میں استعمال ہونے والا باریک تار وغیرہ
"سونے کا تار نہ چاندی کا چھلہ"
( ١٩١٧ء، شام زندگی، ٨٤ )
١٩ - بادلہ یا گوٹے، کناری کا تار
لے کے شفق کی اوڑھنی سیلا کرن کے تار کا لیایا ہے بن پشواز کوں سورج ترا ہو کر بجاز
( دیوان، ہاشمی، ٨٤ )
٢٠ - کپڑے کی دھجی، لیر۔
"اس نے عجب فیل مچائے، گھنٹوں تک پٹخنیاں کھایا کی کپڑوں کا ایک تار باقی نہ رکھا"۔
( ١٨٧٧ء، توبۃ النصوح، ١٠٨ )
٢١ - سالن کے اوپر کی چکنائی۔
"کسی نے کہا ذرا سا تار دو، کوئی بولا، چودھری ایک بوٹی بے ریشہ"
( ١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نا اہل پڑوسی، ٣١ )
٢٢ - [ مجازا ] سلسلہ، آبشار کی وہ رو جو چمکدار تار سی نظر آتی ہے۔
وہ پانی کا جھرنا وہ چاندی کے تار وہ شیشے کی چادر وہ صاف آبشاررجوع کریں:
٢٣ - تانا بانا(نوراللغات)
٢٥ - وہ تار جو کٹھ پتلیوں کے تماشے میں کام میں لاتے ہیں۔
"بچوں کو کٹھ پتلی کی طرح تار پر نچا رہا ہے"
( ١٩٢٥ء، معاشرت، ظفر علی خاں، ٢٥ )
٢٦ - اختیار، عمل و حرکت وغیرہ
ہمارا تار خدا جانے کس کے ہاتھ میں ہے تماشا اگر ہے نہاں ہم ہویدا ہیں
( ١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ٢٢٣ )
٢٧ - بجلی کا تار۔
ناظم یہ تار بجلی کے نکلے ہیں واہ خوب باتیں کریں گے یار ہو کتنا ہی ہم سے دور
( ١٨٦١ء، دیوان ناظم، ٨٠ )
٢٨ - [ پیمائش ] مساحت میں سطح کو ناپنے کے بعد ان کا سولھواں حصہ۔
"گرہ کے سولھویں جز کو بہر کہتے ہیں اور اس کے سولویں جز کو تار کہتے ہیں"۔
( ١٨٥٦ء، فوائد الصبیان، ٤٣ )
٢٩ - وہ دھاگا جس سے کپڑا بنا جائے۔
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں یعنی ہماری جیب میں ایک تار بھی نہیں
( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ١٢٠ )