بت

( بُت )
{ بُت }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء میں قطب مشتری میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع استثنائی   : بُتاں [بُتاں]
جمع غیر ندائی   : بُتوں [بُتوں (و مجہول)]
١ - مجسمہ، مورتی، وہ صورت جو پتھر، مٹی، دھات یا لکڑی وغیرہ سے بنائی جائے۔ (بیشتر پرستش کے لیے)۔
"جن بتوں اور دیوتاؤں کے رعب و ہیبت سے وہ کانپتے تھے، آپ ان کو منہدم کرنے کا حکم دیتے تھے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ١٠٦:٣ )
٢ - [ مجازا ]  معشوق۔
 زمانہ بتوں پر فدا ہو رہا ہے خدا کی خدائی میں کیا ہو رہا ہے      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ٦٩ )
٣ - [ مجازا ]  خاموش، دم بخود، گم صم، بے حسن و حرکت، حیران۔
 رہا مانح شب وصل امتحاں حیرت و تمکیں ادھر میں بت ادھر وہ بت نہ وہ سرکے نہ میں سرکا      ( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ٤٩ )
٤ - احمق، بیوقوف، مورکھ، مدہوش۔ (فرہنگ آصفیہ 1: 364؛ نوراللغات، 56:1)
  • idol
  • image
  • statue;  a beloved object
  • mistress;  blockhead
  • dolt