تازہ

( تازَہ )
{ تا + زَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم صفت ہے اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
تقابلی حالت   : تازَہ تَر [تا + زَہ + تَر]
تفضیلی حالت   : تازَہ تَرِیْن [تا + زَہ + تَرِیْن]
١ - پژمردہ کی ضد، سرسبز، ہرا بھرا۔
 جوانی کے گلشن کا وہ تازہ گل کرے جس کی خاک قدم تازہ گل      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٩٦٣ )
٢ - جدید، حال کا۔
 مدت میں وہ پھر تازہ ملاقات کا عالم خاموش اداؤں میں وہ جذبات کا عالم    ( ١٩٦٠ء، جگر، آتش گل، ١٩١ )
٣ - تر کیا ہوا، پانی تبدیل کیا ہوا (حقہ) (جامع اللغات)
٤ - (پھل پھول) ڈال کا ٹوٹا، پیڑ کا اترا۔ (نوراللغات)
٥ - فربہ، موٹا تازہ، توانا، تنومند۔
"یہ بچہ کیا چھوٹا سا پیارا لاڈلا حسین و تازہ و توانا ہے۔"      ( ١٩٠٤ء، سوانح عمری ملکہ وکٹوریہ، ٦٦٨ )
٦ - غیر مستعمل۔ (نوراللغات)
٧ - جو از سر نو ابھرے یا پھر سے نمایاں ہو۔
"خدا کا خیال تازہ ہوتا ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٤٥:١ )
٨ - باسی کی ضد، حال کا بھرا ہوا (پانی)، نیا نکالا ہوا۔
"گریٹ لیک تازہ پانی کی جھیلوں کا ایک سلسلہ ہے جو کینیڈا اور امریکا میں پھیلا ہوا ہے۔"      ( ١٩٦٠ء، دھاتوں کی کہانی، ٩٠ )
٩ - [ مجازا ]  نووارد، نیا نیا، نورسیدہ۔
 اب تو پھڑکے ہے قفس میں تازہ اسیر کوئی دن کو دیکھنا اس کو یہیں ہل جائے گی      ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٢٦٦:١ )
١٠ - خوش (دل کے ساتھ)۔ (نوراللغات)