خاموش

( خاموش )
{ خا + موش (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی مصدر 'خاموشیدن' سے فعل امر 'خاموش' بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ شاذ بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩١ء کو "وصیت الہادی" کے نسخہ میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع استثنائی   : خاموشاں [خا + مو (و مجہول) + شاں]
جمع غیر ندائی   : خاموشوں [خا + مو (و مجہول) + شوں (و مجہول)]
١ - جو اپنی زبان نہ کھولے، چپکا، چپ، ساکت و صاحت۔
"خط کے ختم ہونے پر دو تین لمحے کے واسطے دونوں میاں بیوی خاموش ہو رہے۔"      ( ١٩١٨ء، انگوٹھی کا راز، ١٦ )
٢ - [ مجازا ]  سنسان، ویران، اداسی سے معمور۔
"جس کمرے میں اس کی بہن کی لاش تھی، بالکل خاموش تھا۔"      ( ١٩٥٥ء، منٹو، سرکنڈوں کے پیچھے، ٤٨ )
٣ - بجھا ہوا، گل شدہ (چراغ، آگ وغیرہ کے لیے مستعمل)۔
"پانی برسنے لگا اور اس قدر برسا کہ وہ آگ خاموش ہو گئی۔"      ( ١٩٢٥ء، تجلیات، ٢٥:٢ )
٤ - افسردہ، غمگین، رنجیدہ۔
"خاموش مچمچاتی ہوئی آنکھوں سے کچھ اس طرح ایک ایک کا منہ تکتا تھا کہ رحم آنے لگتا۔"      ( ١٩٧٦ء، چوتھی دنیا، ٤٩ )
٥ - مردہ، مرا ہوا؛ (حرفِ تنبیہ) چپ کرو (استاد بچوں کو عموماً کہتے ہیں) (جامع اللغات)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - گھوڑے کی ایک بیماری کا نام۔ (جامع اللغات)
١ - خاموش کرنا
بجھا دینا، گل کرنا، بے نور کر دینا۔ کس کو اکے نورِ مجسم ترے آگئے ہو فروغ کر دیا تو نے چراغ ید بیضا خاموش      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ٧٢:٢ )