گل

( گُل )
{ گُل }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : گُلوں [گُلوں (و مجہول)]
١ - پودے کا تناسلی عضو جس میں ایک یا ایک سے زیادہ پتیاں ہوتی ہیں، پودے کا رنگین (سبز کے علاوہ) حصہ جو بعد میں تخم یا پھل کی شکل اختیار کر لیتا ہے، گل، کسم۔
"بالکل ایسا عمل ہے کہ جیسے آپ ایک گل بنفشہ کو ایک کٹھالی میں ڈال کر اس کے رنگ و بود کا راز دریافت کرنے کی کوشش کریں۔"      ( ١٩٦٧ء، مغربی شعریات (ترجمہ)، ٦٨ )
٢ - گلاب کا پھول، گلاب۔
 کسی کو پسند عطر گل آتا ہے کوئی کیوڑے میں مہک جاتا ہے      ( ١٨٩٣ء، صدق البیان، ٦٠ )
٣ - مصنوعی پھول جو جوتوں میں لگاتے ہیں۔ (نوراللغات)
٤ - چمڑا جو جوتی میں ایڑی کے مقام پر لگا ہوتا ہے۔
 روح میری خوش نہ ہو گی اور پھولوں سے کبھی کوئی میری قبر پر کفش صنم کے لائے گل      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ٧٨:٢ )
٥ - آنکھ کی پھلی یا پھولا (ایک بیماری)۔
"جو گل پڑ گیا ہے تو تھوڑا سیندور، چند روز مانند سرمہ کے لگائیں نشان پھول کا موقوف ہو جائے گا۔"      ( ١٨٤٥ء، مجمع الفنون (ترجمہ)، ٣١ )
٦ - چونے کا گول نشان جو کنپٹی پر آشوب چشم کے مرض میں لگاتے ہیں۔ (نوراللغات، جامع اللغات)۔
٧ - داغ یا نشان جو کسی دھات کو گرم کر کے جسم پر دیا جائے نیز گودنے یا کھرونچے وغیر کا نشان۔
 دست و حشت نے تراشے مرے سینے پہ وہ گل خط ناخن کی ثنا ہوتی ہے گلزاروں میں      ( ١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ١٧٣ )
٨ - جانور یا پرند کے جسم پر اس کے رنگ سے مختلف رنگ کا گولائی لیے ہوئے دھبا، نشان یا چتی۔
"بور بچے کے گل، بیچ میں ہلکے زرد میلے سپید ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، قطب یار جنگ، شکار، ٣٦٨:٢ )
٩ - چراغ یا شمع وغیرہ کی بتی کا جلا ہوا سرا۔
"دکان میں لٹکی ہوئی مٹی کے تیل کی کپی کی بتی کا گل جل جل کر جھڑ رہا تھا۔"      ( ١٩٦٣ء، دلی کی شام (ترجمہ)، ٤٧٣ )
١٠ - حقے کا جلا ہوا تمباکو۔
 اگن میں جان کر جو جی جلاوے چمن میں عشق کے تب گل کہاوے      ( ١٧٣٦ء، دیوان زادہ، حاتم، ٢١٠ )
١١ - پسے ہوئے کوئلوں سے بنے ہوئے مدور قرص یا گولے جن کی آگ دیر تک قائم رہتی ہے۔
"بھیلسے تماکو کی چلمیں توے لگی ہوئی تیار کوئلوں کے گل دہک رہے ہیں۔"      ( ١٩١١ء، قصۂ مہر افروز، ٢٣ )
١٢ - [ کنایۃ ]  محبوب، معشوق، دلبر۔
 میں اوس گل کو پیغام کہتا ہزاروں ہوا ہو گئی پر صبا کہتے کہتے      ( ١٨٩٤ء، کلام دلدار علی مذاق، ٣٠٥ )
١٣ - [ تصوف ]  نتیجۂ عمل اور لذت معرفت نیز حسن مجازی۔ (مصباح التعرف)۔
١٤ - وہ چیز جس کے باعث رونق ہو، زیور وغیرہ۔
"وہ محفل میں گل ہیں۔"      ( ١٩٣١ء، نوراللغات، ٥٩:٤ )
١٥ - بارونق، خوش مزاج، باغ و بہار شخص۔
"ان بھائی کا مزاج بہت اچھا معلوم ہوتا ہے بہت گل آدمی ہیں۔"      ( ١٨٩٠ء، طلسم ہو شربا، ٢٥٩:٤ )
١٦ - خوبصورت شخص، حسین آدمی۔
"ایسے گل شوہر کی تم نے یہ مٹی پلیدکی۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٣٨ )
١٧ - راگ، لحن، ایک خاص طرز کا گانا جو امیر خسرو سے منسوب کیا جاتا ہے۔
"امیر نے سب سے پہلے عجمی موسیقی کے انداز پر ترانہ قول، نقش و نگار، گل وغیرہ گانے ایجاد کیے۔"      ( ١٩٦٠ء، حیات امیر خسرو، ١٨٥ )
١٨ - وہ پھول جو کپڑے پر کاڑھتے ہیں۔ (جامع اللغات)
١٩ - کار چوبی بنی ہوئی چمکدار ٹکلی جو عورتیں خوبصورتی کے لیے کنپٹیوں پر لگا لیتی ہیں۔ (ماخوذ: جامع اللغات)
٢٠ - کسی لجلجی چیز کی لگدی، جیسے: ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب سے نکالا ہوا پیسٹ۔
"اس نے ٹیوب سے لمبا سفید گل نکالا اور احتیاط سے اپنے برش پر جما دیا۔"      ( ١٩٨١ء، راجہ گدھ، ١٤٧ )
  • A rose;  a flower;  a red path (on anything);  snuff (of a lamp or a candle);  al bugo
  • speck or pearl (in the eye);  a seton
  • an issue;  a brand;  around spot of lime applied to the temple (as a remedy for implammation of the eye);  a ball of prepared charcoal (used for burning tobacco in a huqqa).